جمعہ 17 شوال 1445 - 26 اپریل 2024
اردو

بيوى كو طلاق دى تو طلاق كى نيت نہ تھى

141787

تاریخ اشاعت : 29-10-2010

مشاہدات : 4264

سوال

ميں بہت زيادہ متعصب ہوں اور بہت سارے معاملات ميں بيوى كے ساتھ مناقشہ نہيں كرتا، ميرے گھر والوں اور ميرى بيوى كے درميان كچھ مشكلات پيدا ہوئى اور بيوى غصہ ميں آ گئى اور اس نے آواز بلند كى اور كمرہ ميں داخل ہو كر دروازہ بند كر ديا اور مجھ سے طلاق كا مطالبہ كرنے لگى، ميں گھر سے باہر جانا چاہتا تھا كيونكہ ميرے ليے كمرہ تنگ ہو گيا گويا كہ وہ قبر ہے، بيوى نے مجھے چابى دينے سے انكار كر ديا ميں نے كمرہ ميں تلاش كى ليكن مجھے نہ مل سكى.
ميں نے اپنے آپ كو اسے مارنے سے روكنے كے ليے بيوى كو كہا كہ تجھے طلاق ہے، كيونكہ ايك گھنٹہ يا اس سے زائد يہ دباؤ ميں برداشت نہ كر سكا، ميرى نيت طلاق دينے كى نہ تھى بلكہ ميں نے يہ الفاظ اس ليے بولے كہ بيوى نے مجھے مجبور كر ديا تھا... يہ دوسرى طلاق تھى اور ميں نے دو دن ميں ہى اس سے رجوع كر ليا.
ليكن تين برس كے بعد ہمارے درميان سختى كلامى ہوئى اور اس نے ميرے گھر والوں پر سب و شتم كيا، تو ميں نے اس پر ہاتھ اٹھايا تا كہ اسے خاموش كر سكوں ليكن اس نے مجھ پر بھى آواز بلند كى تو ميں نے اسے خاموش كرانے كے ليے كہا تجھے طلاق ہے، پھر مجھے ياد آيا كہ وہ تو حيض كى حالت ميں ہے....
ميں اسے طلاق نہيں دينا چاہتا كيونكہ ہمارے بچے بھى ہيں جن ميں سب سے بڑے كى عمر صرف سات برس ہے، ميں صرف اسے اس كے علاوہ كسى اور طريقہ سے نہ تو خاموش كرا سكتا ہوں اور نہ ہى ادب سكھا سكتا ہوں.
برائے مہربانى مجھے معلومات فراہم كريں، ميں طلاق نہيں دينا چاہتا كيونكہ ميں بيوى چاہتا ہوں دونوں حالتوں ميں اس كا حل كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر كوئى شخص اپنى بيوى كو كہے " تجھے طلاق ہے " تو يہ صريح طلاق ہے اس ميں نيت كى ضرورت نہيں، ليكن اگر كوئى شخص مثلا يہ الفاظ كہے : جاؤ اپنے ميكے چلى جاؤ، يا اپنے گھر والوں كے پاس چلى جاؤ، يا ميں تمہيں نہيں چاہتا وغيرہ الفاظ بولے تو يہ فقھاء كے ہاں طلاق كا كنايہ كہلاتا ہے، اس ليے يہ كنايہ سے اس وقت تك طلاق نہيں ہو گى جب تك طلاق كى نيت نہ پائى جائے.

آپ نے جو يہ بيان كيا ہے كہ طلاق زندگى كو بدلنے كے ليے مشروع كي گئى ہے، يہ تعبير دقيق نہيں، كيونكہ طلاق تو زندگى تبديل كرنے كے ليے بھى مشروع ہے، اور ضرر و نفرت كے حصول كے وقت بھى، اگرچہ اس كے ساتھ زندگى گزارنا ممكن بھى ہو.

اس كا يہ معنى نہيں كہ ان اسباب كے ہوتے ہوئے ہى طلاق واقع ہوتى ہے، بلكہ جب بھى كوئى شخص اپنى بيوى كو طلاق دے تو طلاق ہو جائيگى، چاہے وہ اچھى بھلى اور سعادت كى زندگى بسر كر رہا ہو، يا پھر اس نے بطور مذاق اور كھيل طلاق كے الفاظ بولے تو بھى بالاتفاق طلاق واقع ہو جائيگى.

دوم:

فقھاء كرام كے ہاں حالت حيض ميں طلاق ہونے ميں اختلاف پايا جاتا ہے، اور جمہور علماء طلاق ہو جانے كے قائل ہيں، اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ حالت حيض ميں طلاق نہيں ہوتى.

اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 72417 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

آدمى كو چاہيے كہ وہ وہاں طلاق استعمال كرنے سے اجتناب كرے جہاں مشروع نہيں ہے، كيونكہ طلاق دھمكى اور وعيد اور غصہ ختم كرنے كے ليے مشروع نہيں كى گئى، اور نہ ہى كسى معين مصيبت سے نكلنے كے ليے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہم سب كے حالات كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب