منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

كيا خاوند اور بيوى حج كى ادائيگى كے ليے سونا گروى ركھ سكتے ہيں ؟

سوال

ميرى ابهى كچھ عرصہ قبل ہى شادى ہوئى ہے، اب ہم خاندان كى ابتدا كرنے سے قبل فريضہ حج كى ادائيگى كے ليے جانا چاہتے ہيں، ليكن ہمارے پاس اخراجات كے ليے رقم كم ہے، اور ہميں جو تحفے تحائف ميں سونا ملا ہے وہ گروى ركھ كر ہم اپنے اخراجات پورے كر سكتے ہيں، ميرا سوال ہے كہ:
آيا اس طريقہ اور اس طرح كے مال سے حج كرنا جائز ہے، يا سونا فروخت كرنا افضل ہے ؟
اور كيا اس گروى ركھے ہوئے سونے پر زكاة ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر قرض حاصل كيے بغير حج نہ كيا جا سكتا ہو اور حاصل كردہ قرض كى ادائيگى كے ليے آپ كے پاس سونا وغيرہ ہو تو اس حاصل كردہ قرض كى رقم سے حج كرنے ميں كوئى حرج نہيں۔

كوئى بھى چيز كسى كے ہاں گروى ركھنا كتاب و سنت اور اجماع سے ثابت اور جائز ہے.

اور رہن و گروى كا مقصد قرض كى توثیق ہوتى ہے، جو کہ مقروض شخص گروى كى شكل ميں قرض خواہ كے پاس وہ چيز بطور ضمانت ركھتا ہے۔

اسکے جواز کے متعلق اللہ تعالى كا فرمان ہے:

( وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَقْبُوضَةٌ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ )

ترجمہ: اور اگر تم سفر ميں ہو تمہيں لكھنے والا نہ ملے تو رہن و گروى قبضہ ميں ركھ ليا كرو، ہاں اگر آپس ميں ايك دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دى گئى ہے وہ اسے ادا كر دے اور اللہ سے ڈرتا رہے جو اس كا رب ہے۔ البقرۃ ( 283 )

گروى ركھى گئى چيز سونا بھى ہو سكتى ہے اور چاندى بھى، يا كوئى اور قيمتى چيز بھى ركھى جا سكتى ہے، كيونكہ اللہ تعالى نے عمومى طور پر " گروى قبضہ ميں ركھ ليا كرو " فرمايا ہے، كسى چيز كو مقيد نہيں فرمايا۔

دائمی فتوى كميٹى كے علمائے كرام سے پوچھا گيا:

اگر ہمارے پاس ہمارا كوئى دوست آ كر ہم سے كچھ رقم قرض مانگے اور واپس كرنے تك ہمارے پاس سونا ركھ دے تو كيا جائز ہوگا ؟

كميٹى كے علمائے كرام كا جواب تھا:

" چاندى كے بدلے سونا يا پھر سونے كےبدلے چاندى گروى ركھنا جائز ہے" انتہى.

ماخوذ از: "فتاوى اللجنۃ الدائمۃ "( 13 / 480 )

كميٹى كے علماء سے یہ سوال بھى كيا گيا:

ميں ايك چھوٹى سى كمپنى كا مالك ہوں جہاں اليكٹرانك اشياء قسطوں پر دى جاتى ہيں، ليكن ہم اس كے بدلے بطور گروى كوئى چيز ركھتے ہيں، طريقہ يہ ہے كہ: جب گاہك كوئى اليكٹرانك چيز خريدنے آتا ہے تو ہم اس كى قسطوں ميں قيمت طے كر كے قسط مكمل ہونے تك بطور ضمانت اتنى يا اس سے كچھ كم قيمت كا سونا اپنے پاس ركھتے ہيں، اور جب مدت محددہ ميں قسطيں مكمل ہو جاتى ہيں تو ہم اس كى وہ امانت اسى طرح مكمل واپس كر ديتے ہيں كيا گروى كا يہ طريقہ شريعت كے مطابق صحيح ہے يا نہيں ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" آپ اپنے گاہك سے ادھار چيز خريدنے كے مقابلہ ميں اس كے برابر قيمت ميں سونا وغيرہ بطور گروى و ضمانت ركھنا شرعاجائز ہے؛ كيونكہ رہن و گروى ركھنا كتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے، كيونكہ گروى كى حقيقت تو كسى چيز كى ادھار فروخت كى توثيق ہے جسکی بیع شرعا جائز ہو، تا كہ اگر خريدار قيمت ادا نہ كر سكے تو گروى يا اس كى قيمت سے وہ رقم پورى كى جا سكے، ليكن آپ كو اس رہن و گروى كى مكمل حفاظت كرنا ہوگى كيونكہ وہ آپ كے پاس امانت ہے۔

اور گروى ركھنے والا اپنا قرض ادا نہ كر سكے، يا پھر گروى ركھى گئى چيز قرض کی ادائیگی کیلئے فروخت نہ كرے تو پھر گروی چیز کو فروختگی اور اپنا حق لینے کیلئے آپ كو شرعى عدالت سے رجوع كرنا ہوگا" انتہى

ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ (11/ 140-141)

رہن رکھنے کی حكمت معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر (132648 ) كا مطالعہ كريں۔

دوم:

اگر گروى ركھا گيا سونا زكاۃ كے نصاب كو پہنچتا ہو، يا پھر آپ كے پاس اور بھى سونا ہو اور وہ سب ملا كر نصاب مكمل ہو جائے تو سال گزرنے كے بعد اس پر زكاۃ ہو گى، اور كسى قرض كےبدلے ميں گروى ركھنا زكاۃ ميں مانع نہيں ہوگا، كيونكہ آپ اس كى ملكيت تامہ ركھتے ہيں۔

اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر (99311 ) كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب