منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

عورت غسل جنابت ميں اپنے بال كيسے دھوئے ؟

34776

تاریخ اشاعت : 26-02-2008

مشاہدات : 15044

سوال

غسل جنابت ميں عورت كا حجاب پر مسح كرنے كا حكم كيا ہے، كيونكہ يورپى اور اجنبى ممالك ميں عورت كو ہر بار غسل جنابت كرتے وقت سر دھونے ميں مشكل پيش آتى ہے، اور اس كے اسلام قبول كرنے ميں روڑے اٹكائے جا سكتے ہيں، كيونكہ پانى اس كے سر كى شكل تبديل كر ديتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شريعت مطہرہ اور اہل علم كى كلام سے يہ چيز معلوم ہے كہ: موزے اور پگڑى اور حجاب وغيرہ دوسرے حائل كردہ اشياء پر جنابت ميں مسح كرجائز نہيں، اس پر اجماع ہے، بلكہ مسح تو صرف خاص كر وضوء ميں جائز ہے.

اس كى حديث صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے جس ميں صفوان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو اپنے موزے تين دن اور راتيں نہ اتاريں، مگر جنابت سے، ليكن پيشاب اور پاخانہ اور نيند سے نہ اتاريں "

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ شريعت اسلاميہ ايك آسان اور سہل شريعت ہے، ليكن غسل جنابت ميں سر دھونے ميں كوئى شديد حرج اور مشكل پيش نہيں آتى؛ كيونكہ جب ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے غسل جنابت اور حيض سے غسل كرنے كے متعلق دريافت كرتے ہوئے عرض كيا:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے سر كى ميڈياں بہت سخت گوندى ہوتى ہيں كيا ميں غسل جنابت اور حيض كے غسل ميں انہيں كھولا كروں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:

" آپ كے ليے صرف اتنا ہى كافى ہے كہ اپنے سر پر تين چلو پانى ڈالو، اور پھر اپنے اوپر پانى بہا لو تو تم پاك ہو جاؤگى "

اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.

اس ليے جو عورتيں سل جنابت ميں اپنا سر دھونے ميں حرج محسوس كرتى ہيں ان كے علم ميں يہ لايا جائے كہ ان كے ليے اتنا ہى كافى ہے كہ وہ اپنے سر پر تين چلو پانى ڈال كر سارے جسم پر پانى بہا ليں، اور ميڈياں كھولنے كى كوئى ضرورت نہيں، اور نہ ہى سر كى ہئيت بدلنے كى ضرورت ہے جس ميں انہيں مشقت ہوتى ہو.

اس كے ساتھ ساتھ انہيں يہ بھى بتايا جائے كہ جب وہ احكام شريعت پر عمل پيرا ہونے ميں صبر سے كام ليں گى تو ان كے ليے اللہ تعالى نے اجر عظيم تيار كر ركھا ہے، اور ان كا اچھا انجام اور اچھى اور عزت والى زندگى حاصل ہو گى، ليكن كسى عارضے اور بيمارى يا زحم كى بنا پر انسان كو مسح كرنے كى ضرورت ہو تو طہارت كبرى اور صغرى دونوں ميں بغير وقت مقرر كيے ضرورت كى بنا پر مسح كرنا جائز ہے، جب تك اس كى ضرورت رہے.

اس كى دليل جابر رضى اللہ تعالى عنہ كى وہ روايت ہے جس ميں بيان ہوا ہے كہ ايك شخص كا سر زخمى ہو گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے حكم ديا كہ زخم پر پٹى باندھ كر اس پر مسح كر لو، اور باقى سارا جسم دھو لو "

اسے ابو داود نے سنن ابو داود ميں روايت كيا ہے.

اسلام قبول كرنے والے مرد اور عورتيں جو بعض اسلامى احكام ميں توقف كرتے، يا بعض مسائل پر عمل پيرا ہونے ميں حرج محسوس كرتے ہيں انہيں ايك تنبيہ كرنا بہتر معلوم ہوتا ہے كہ:

انہيں يہ كہا جائے كہ جنت ناپسنديدہ اشياء اور مشكلات سے گھيرى گئى ہے، اور جہنم كى آگ شہوات سے گھرى ہوئى ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے بندوں كو جو احكام ديے ہيں وہ صرف اس ليے ہيں كہ تا كہ انہيں آزمائے كہ ان ميں سے كون ہے جو بہتر اور اچھے علم كرتا ہے؟ .

چنانچہ اللہ تعالى كى رضامندى، اور اس كى جنت كا حصول اور اس كى عزت و كاميابى ہر اعتبار سے آسان اور سہل كام حاصل ہو نہيں سكتى ہے، كہ انسان كو اس پر عمل كرنے ميں كوئى مشقت ہى پيش نہ آئے، معاملہ اس طرح نہيں، بلكہ صبر كرنا اور اپنے نفس كے ساتھ جدوجھد كرنى ضرورى ہے، اور اللہ عزوجل كى رضامندى، اور اس كى عزت كے حصول، اور اس كے غضب و نارضگى اور سزا سے بچنے كے ليے مشقت برداشت كرنا ضرورى ہے.

جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

جو كچھ زمين پر ہے ہم نے اسے اس كى زينت اس ليے بنايا ہے تا كہ ہم انہيں آمائيں كہ ان ميں سے كون اچھے اعمال كرتا ہے الكھف ( 7 ).

اور ايك دوسرے مقام پر اس طرح ارشاد فرمايا:

وہ ذات جس نے موت و حيات كو پيدا كيا تا كہ تمہيں آزمائے كہ تم ميں سے كونے ہے جو اچھے عمل كرتا ہے الملك ( 2 )

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور ہم انہيں ضرور آزمائينگے حتى كہ ہم تم ميں سے مجاہدين اور صبر كرنے والوں كو معلوم كر ليں، اور تمہارے حالات جانچ ليں محمد ( 31 ).

اس موضوع كى آيات بہت ہيں ہم اسى پر اكتفا كرتے ہيں.

اللہ تعالى سے ہمارى درخواست ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو ہدايت كى راہنمائى كرنے والوں ميں سے بنائے، اور مسلمانوں كے حالات درست فرمائے، اور سب كو اس كى بصيرت سے نوازے جس كے ليے اسے پيدا كيا گيا ہے، اور ان ميں حق كى دعوت دينے والوں كى كثرت فرمائے، يقينا اللہ تعالى اس پر قادر ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات شيخ ابن باز ( 6 / 237 )