جمعہ 17 شوال 1445 - 26 اپریل 2024
اردو

جھاد كے بعض احكام اور شہداء كے درجات اور موت كے بعد ان كى زندگى

71284

تاریخ اشاعت : 31-03-2007

مشاہدات : 10667

سوال

آپ سے گزارش ہے كہ جھاد فى سبيل اللہ كے متعلق كچھ تفصيلى معلومات فراہم كريں جس ميں درج ذيل نقاط كو سامنے ركھا گيا ہو:
1 - جھاد كا لغوى اور شرعى مفہوم.
2 - شھادت كا لغوى اور شرعى معنى.
3 - شہداء كے درجات اور ان كى اقسام.
4 - اللہ رب العزت كے ہاں شہداء كى زندگى.
5 - اعلان جھاد ميں امام المسلمين اور حكمران كى اجازت كا كيا اثر ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جھاد كا لغوى معنى:

طاقت اور وسعت كے مطابق قول و فعل كو صرف اور خرچ كرنا.

جھاد كا شرعى معنى:

اللہ تعالى كا كلمہ اور دين بلند كرنے كے ليے مسلمانوں كا كفار كے خلاف قتال اور لڑائى كے ليے جدوجھد كرنا.

ديكھيں: النھايۃ فى غريب الحديث لابن اثير الجزرى ( 1 / 319 ) اور المصباح المنير ( 1 / 112 ) اور اھميۃ الجھاد تاليف ڈاكٹر على بن نفيع العليانى.

دوم:

شھادت كا لغوى معنى:

لغت ميں شھادت كا اطلاق كئى ايك معانى پر ہوتا ہے: مثلا يقينى اور قطعى خبر پر، حضور، اور معاينہ، پر اور اعلانيہ اور موت فى سبيل اللہ ان سب پر شہادت كا اطلاق ہوتا ہے.

شھادت كا شرعى معنى:

جو شخص كفار كے ساتھ لڑائى ميں اور اس كے سبب سے مارا جائے تو اسے شہيد كہا جاتا ہے، اور اس كے ساتھ كئى دوسرے امور بھى ملحق كيے جاتے ہيں جن كا بيان آگے آ رہا ہے.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 26 / 214 - 272 ).

سوم:

شہداء كى اقسام:

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

آپ يہ علم ميں ركھيں كہ شہيد كى تين قسميں ہيں:

پہلى قسم:

قتال كے اسباب ميں سے كسى بھى سبب كى بنا پر كفار كے ساتھ لڑائى ميں قتل ہونے والا شخص، تو اس شخص كو آخرت كے ثواب اور دنيا كے احكام ميں شہيد كا حكم حاصل ہوتا ہے كہ اسے نہ تو غسل ديا جائيگا اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ ادا ہوتى ہے.

دوسرى قسم:

صرف اجروثواب ميں شہيد ليكن اسے دنياوى احكام ميں شہيد كا حكم حاصل نہيں، اور وہ پيٹ كى بيمارى سے مرنے والا، يا طاعون كى بنا پر ہلاك ہونے والا، اور جس پر كوئى چيز گر جائے اور وہ ہلاك ہو، اور جو شخص مال كى حفاظت كرتا ہوا مرے، اور اس كے علاوہ دوسرے اشخاص جن كا صحيح احاديث شہيد كے نام سے ذكر ہوا ہے، تو ان اشخاص كو غسل بھى ديا جائيگا، اور ان كى نماز جنازہ بھى ادا كى جائيگى، اور آخرت ميں انہيں شھداء كا اجروثواب حاصل ہوگا، اوراس سے يہ لازم نہيں آتا كہ ان كا اجروثواب بھى پہلى قسم كے شہيد جيسا ہى ہو.

تيسرى قسم:

مال غنيمت ميں خيانت كرنے والا يا اس كے مشابہ وہ شخص جس سے احاديث ميں شہيد كے نام كى نفى كى گئى ہے جب وہ كفار كے ساتھ لڑائى ميں قتل ہو جائے، تو ايسے شخص كو بھى دنيا ميں شہيد كا حكم حاصل ہوگا اسے نہ تو غسل ديا جائيگا اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ ادا ہو گى، اور آخرت ميں اسے مكمل شہيد كا اجروثواب حاصل نہيں ہوگا " انتہى.

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 2 / 164 ).

شہداء كے درجات و مراتب:

شھداء كا مقام و مرتبہ بہت عظيم الشان ہے جو كہ نبيوں اور صديقوں كے ساتھ ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

تو يہ لوگ ان كے ساتھ ہونگے جن پر اللہ تعالى نے انعام و اكرام كيا نبيوں اور صديقين اور شھداء اور صالحين ميں سے .

بندوں كے يہ چار مراتب ہيں، ان ميں سب سے افضل مرتبہ انبياء كا ہے اور پھر ان كے بعد صديقين كا اور پھر صالحين كا " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 2 / 223 ).

اور اللہ سبحانہ وتعالى نے جنت ميں بھى مرتبے اور درجات بنائے ہيں جن ميں سے شہداء كے ليے ايك درجے ہيں جيسا كہ صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت ملتا ہے، تو اس طرح سب شھداء ايك ہى درجہ اور مرتبے ميں نہيں ہونگے، بلكہ ان كے مقام و مرتبہ ميں فرق ہوگا.

دوران معركہ شہيد ہونے والے كے علاوہ باقى شھداء كو شمار كرنے كے بعد ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جيد طرق كے ساتھ ہمارے سامنے بيس خصلتوں سے بھى زيادہ جمع ہوئى ہيں ....

ابن التين رحمہ اللہ كہتے ہيں: ان سب اموات ميں شدت اور سختي ہے، اللہ سبحانہ وتعالى نے امت محمديہ پر فضل و كرم كرتے ہوئے اسے گناہوں كا كفارہ اور اسے مٹانے والا بنايا ہے، اور اس سے ان كے اجروثواب ميں زيادتى كر كے انہيں شھداء كے مراتب تك پہنچايا ہے.

ميں ( ابن حجر ) كہتا ہوں:

ظاہر يہ ہوتا ہے كہ يہ مذكورين درجہ اور مرتبہ ميں برابر نہيں، اس كى دليل مسند احمد اور صحيح ابن حبان كى جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى، اور مسند دارمى اور مسند احمد اور طحاوى كى عبد اللہ بن حبشي سے روايت كردہ، اور سنن ابن ماجہ كى عمرو بن عنبسہ سے روايت كردہ حديث ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا گيا:

كونسا جھاد افضل ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كے گھوڑے كى كوچيں كاٹ ڈالى گئى ہوں، اور اس كا اپنا خون بہا ديا گيا ہو " انتہى.

ديكھيں: فتح البارى ( 6 / 43 - 44 ) مختصرا.

سنت نبويہ ميں ايسى احاديث ملتى ہيں جو شھداء كے مراتب مختلف ہونے كو ثابت كرتى ہيں، ذيل ميں چند ايك احاديث پيش كى جاتى ہيں:

ا ـ نعيم بن ھمار رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا، شھداء ميں سے كونسا شہيد افضل ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جواب ديا:

" وہ لوگ جو لڑائى كى صف ميں ہوں اور دشمن كا مقابلہ ہو جائے تو وہ قتل ہونے سے قبل اپنے چہرے كو نہيں پھيرتے، يہى وہ لوگ ہيں جو جنت كے اونچے بالا خانوں ميں جائيں گے، اور ان كا رب ان كے ليے ہنسےگا، اور جب تيرا رب دنيا ميں كسى بندے كے ليے ہنسے تو اس كا كوئى حساب و كتاب نہيں ہوگا "

مسند احمد حديث نمبر ( 21970 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2558 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ب ـ عتبہ بن عبد السلمى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" شھيد تين قسم كے ہيں: وہ مومن شخص جو اپنے مال اور جان كے ساتھ اللہ كى راہ ميں لڑے حتى كہ دشمن سے مقابلہ ہو اور وہ قتل كر ديا جائے، تو يہ شخص وہ شہيد ہے جو اللہ كے عرش كے نيچے خيمہ ميں فخر كے ساتھ رہےگا اس شخص سے نبى نبوت كى بنا پر صرف ايك درجہ افضل اور بلند ہونگے، وہ مومن شخص جس نے اپنے اوپر بہت سے گناہ اور معصيت كا ارتكاب كيا، اور پھر اپنے مال اور نفس كے ساتھ اللہ كى راہ ميں جہاد كرتے ہوئے دشمن ميں مقابلہ ميں مارا گيا، تو اس كے گناہ اور معصيت ختم كر ديےجائينگے، بلا شبہ تلوار نے اس كے گناہ مٹا ڈالے ہيں، اور جنت كے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے، كيونكہ جنت كے آٹھ دروازے ہيں اور جہنم كے سات دروازے، جو كہ ايك دوسرے سے افضل اور بہتر ہيں.

اور وہ منافق شخص جس نے اپنے مال اور جان كے ساتھ جہاد كيا حتى كہ دشمن كے مقابلے ميں اللہ كى راہ ميں لڑتا ہوا قتل كر ديا گيا تو يہ شخص جہنم ميں ہے، تلوار نفاق كو ختم نہيں كرتى "

مسند احمد حديث نمبر ( 17204 ) امام منذرى رحمہ اللہ نے الترغيب والترھيب ( 2 / 208 ) ميں اسے جيد قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1370 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

ج ـ عبد اللہ بن حبشي الخثعمى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا گيا:

كونسا جھاد افضل ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جواب ديا:

" جس نے مشركوں كے خلاف اپنے مال اور اپنى جان سے جھاد كيا "

عرض كيا گيا: تو كونسا قتل زيادہ شرف والا ہے ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جواب ديا:

" جس كا خون بہا ديا گيا ہو، اور اس كے گھوڑے كى كوچيں كاٹ ڈالى گئى ہوں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1449 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 2526 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1318 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

د ـ

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" حمزہ بن عبد المطلب سيد الشھداء ہيں، اور وہ شخص جو ايك ظالم حكمران كے سامنے اٹھ كھڑا ہو اور اسے امر بالمعروف كا حكم دے اور نہى عن المنكر يعنى برائى سے منع كرے تو وہ حكمران اسے قتل كر دے "

مستدرك الحاكم اسے علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 374 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

چہارم:

اور رہا مسئلہ شہداء كى برزخى زندگى كا كہ وہ اپنے رب كے پاس زندہ ہيں، اس ميں اللہ تعالى اپنے شہيد بندوں كى جنت كى نعمتوں كے ساتھ خاطر تواضع كرتا ہے، اور وہ دنيا ميں اپنى نيتوں اور اعمال ميں ايك دوسرے سے مختلف ہونے كے وجہ سے اس نعمتوں ميں بھى مختلف ہوتے ہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جو لوگ اللہ كى راہ ميں شہيد كر ديے گئے ہيں ان كو ہرگز مردہ نہ سمجھيں، بلكہ وہ زندہ ہيں اپنے رب كے پاس روزياں ديے جاتے ہيں .

اللہ تعالى نے انہيں جو اپنا فضل دے ركھا ہے اس سے بہت خوش ہيں اور خوشياں منا رہے ہيں ان لوگوں كى بابت جو اب تك ان سے نہيں ملے، ان كے پيچھے ہيں، اس پر كہ انہيں نہ تو كوئى خوف ہے، اور نہ وہ غمگين ہونگے .

وہ خوش ہوتے ہيں اللہ كى نعمت اور فضل سے اور اس سے بھى كہ اللہ تعالى ايمان والوں كے اجر كو برباد نہيں كرتا آل عمران ( 169 - 171).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور جو لوگ اللہ كى راہ ميں شہيد كر ديےگئے ہيں انہيں مردہ مت كہو، بلكہ وہ زندہ ہيں ليكن تمہيں اس كا شعور نہيں البقرۃ ( 154 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور وہ اپنے رب كے ہاں زندہ ہيں " جيسا كہ آل عمران كى آيت ميں ہے سے مراد برزخى زندگى ہے جس كى كيفيت كا ہميں علم نہيں، اور نہ ہى وہ زندگى كھانے پينے كى محتاج ہے اور نہ ہى ہوا كى جس سے جسم قائم رہ سكے؛ اسى ليے اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا ہے:

ليكن تمہيں اس كا شعور نہيں .

يعنى تم ان كى زندگى كا شعور نہيں ركھتے؛ كيونكہ يہ برزخى اور غيبى زندگى ہے؛ اور اگر ايسى نہ ہوتى تو اللہ تعالى ہميں اس كى خبر ديتے جسے ہم جانتے تھے....

آيت كے فوائد ميں ايك فائدہ يہ ہے كہ: شہداء كى زندگى كا ثبوت ہے، ليكن يہ زندگى برزخى ہے جو دنياوى زندگى كى مثل نہيں؛ بلكہ اس سے عظيم الشان اور اجل حيثيت ركھتى ہے، جس كى كيفيت كا آپ علم نہيں ركھتے " انتہى.

تفسير سورۃ البقرۃ ( 2 / 176 - 177 ).

ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعالى باب " برزخ ميں مردوں كى روح كى جگہ كا بيان " كے تحت كہتے ہيں:

اور رہے شہيد تو اكثر علماء كرام كا مسلك يہ ہے كہ وہ جنت ميں ہيں، اور اس كے متعلق احاديث كثرت سے ملتى ہيں:

صحيح مسلم ميں حديث ہے مسروق رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے اس آيت:

اور جو لوگ اللہ كى راہ ميں شہيد كر ديے گئے ہيں ان كو ہرگز مردہ نہ سمجھيں، بلكہ وہ زندہ ہيں اپنے رب كے پاس روزياں ديے جاتے ہيں .

كے متعلق دريافت كيا تو وہ فرمانے لگے:

ہم نے بھى اس كے متعلق دريافت كيا تو آپ نے فرمايا:

" ان كى روحيں سبز پرندوں كے پيٹ ميں ہيں اور ان كى قنديليں عرش كے ساتھ معلق ہيں، وہ جنت ميں جہاں چاہے پھرتے اور سير كرتے ہيں اور پھر ان قنديلوں ميں آكر رہتے ہيں " .....

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1887 ).

مسند احمد اور سنن ابو داود اور مستدرك حاكم ميں سعيد بن جبير رحمہ اللہ سے حديث مروى ہے وہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تمہارے بھائى جنگ احد ميں شہيد ہوئے تو اللہ تعالى نے ان كى روحوں كو سبز پرندوں كے پيٹ ميں ركھ ديا، وہ جنت كى نہروں پر جاتے اور جنت كے پھل كھاتے اور پھر عرش كے سائے ميں لٹكى ہوئى سونے كى قنديلوں ميں آ كر رہتے ہيں، جب انہوں نے اپنے رہنے چلنے پھرنے كى جگہ اور كھانا پينا حاصل كر ليا تو وہ كہنے لگے: ہمارى جانب سے ہمارے بھائيوں كو كون خبر ديگا كہ ہم جنت ميں زندہ ہيں اور ہميں رزق ديا جا رہا ہے، تا كہ وہ لڑائى اور جنگ ميں سستى اور كاہلى نہ دكھائيں، اور جھاد سے پيچھے نہ رہيں، تو اللہ نے فرمايا:

ميں تمہارى جانب سے انہيں خبر دونگا، تو اللہ سبحانہ وتعالى نے يہ آيت نازل فرمائى:

اور جو لوگ اللہ كى راہ ميں شہيد كر ديے گئے ہيں ان كو ہرگز مردہ نہ سمجھيں، بلكہ وہ زندہ ہيں اپنے رب كے پاس روزياں ديے جاتے ہيں .

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1379 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور امام ترمذى اور امام حاكم رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث بيان كى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں نے جعفر بن ابى طالب كو فرشتوں كے ساتھ فرشتہ ہو كر جنت ميں دو پروں كے ساتھ اڑتے ہوئے ديكھا " انتہى.

علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 13762 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ديكھيں: اھوال القبور طبعہ دار الكتاب العربى صفحہ نمبر ( 92 – 104 ).

پنجم:

رہا مسئلہ جھاد كے ليے حكمران اور امام المسلمين كى اجازت كا تو اس كے متعلق سوال نمبر ( 69746 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ: جب كفار مسلمانوں پر حملہ كر ديں تو جھاد فرض عين ہو جاتا ہے، اور اس وقت حكمران اور امام المسلمين كى اجازت كى شرط نہيں رہتى.

اور رہا وہ جھاد جس كا مقصد فتوحات ميں اضافہ اور دين اسلام كو نشر كرنا ہو تو اس ميں امام المسلمين كى اجازت ضرورى ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب