جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

جہاد فى سبيل اللہ كے ليے امام المسلمين كى اجازت كى شرط كا حكم

69746

تاریخ اشاعت : 25-04-2007

مشاہدات : 9700

سوال

كيا جہاد في سبيل اللہ كرنے كے ليے امام المسلمين كى اجازت لينا شرط ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال نمبر ( 20214 ) كے جواب ميں جہاد كا حكم، اور اس كى اقسام بيان ہو چكى ہيں، جس ميں بيان ہوا ہے كہ جب دشمن مسلمانوں پر حملہ آور ہو جائے تو اس حالت ميں ہر مسلمان شخص پر قتال اور لڑائى كرنا فرض ہو جاتا ہے، اور اس وقت امام المسلمين كى اجازت حاصل كرنے كى شرط نہيں.

رہا وہ جہاد جس كا مقصد فتوحات ميں وسعت دينا، اور كفار كو اسلام كى دعوت دينا، اور جو اللہ تعالى كے حكم كے سامنے سرخم تسليم نہ كرے اس كے خلاف لڑنا، تو اس كے ليے امام المسلمين كى اجازت حاصل كرنا شرط ہے، تو اس طرح امور ميں انظباط پيدا ہوتا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور جہاد كا معاملہ امام المسلمين اور اس كے اجتہاد كے سپرد ہے، اور اس سلسلے ميں رعايا كے ليے امام المسلمين كى رائے پر عمل كرنا لازم ہے " انتہى.

ديكھيں: المغنى ( 10 / 368 ).

اور امام المسلمين كى اجازت افراتفرى پيدا كرنے ميں مانع ہے، جس كا اللہ كے دشمنوں كى اور مسلمانوں كى قوت اور امور كو مد نظر ركھے بغير بعض مسلمانوں كا كفار كے خلاف اعلان جہاد كرنے سے پيدا ہونا ممكن ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

اعلاء كلمۃ اللہ اور دين اسلام كى حمايت، اور دين كى نشر و تبليغ اور اس كى حدود اور حرمات كى حفاظت كے ليے جہاد كرنا ہر اس شخص پر فرض ہے جو ايسا كرنے كى قدرت و طاقت ركھتا ہو.

ليكن افراتفرى اور بدنظمى كے خوف سے بچنے كے ليے جس كا انجام اچھا نہ ہو لشكر روانہ كرنا ضرورى ہيں؛ اسى ليے اس كے شروع ہونے اور اس ميں داخل ہونے كے ليے مسلمانوں كے ولى الامر كا عمل دخل ہے، تو علماء كرام اس كے ليے اٹھ كھڑے ہوں.

تو جب جہاد شروع ہو اور مسلمانوں كو اس كے ليے نكلنے كا كہا جائے تو جو شخص بھى اس پر قادر ہو اور اس كى استطاعت ركھتا ہو تو وہ خالصتا اللہ تعالى كى رضا اور حق كى مدد و نصرت اور دين اسلام كى حمايت و بچاؤ كے ليے اس دعوت كو قبول كرے، اور جو شخص بھى ضرورت ہونے كے باوجود بغير كسى عذر جہاد سے پيچھے رہا وہ گنہگار ہوگا " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 12 / 12 ).

اور لوگوں كا امام المسلمين كى جانب سے اكٹھا ہونا ان كى وقوت و طاقت ميں اضافہ كريگا، اس پر مستزاد يہ كہ ان كا امام المسلمين كى ہر اس كام ميں اطاعت كا التزام كرنا جو شريعت كے مخالف نہ ہو شرعى واجب ہے، اس سے مسلمان مجاہدين كى صفوف ميں وحدت پيدا ہوگى اور وہ سب مل كر دين حنيف اور اللہ كى شريعت كى مدد و حمايت كرينگے.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ جاننا ضرورى ہے كہ لوگوں كا ولى الامر بننا عظيم دينى واجبات ميں شامل ہوتا ہے، بلكہ اس كے بغير نہ تو دين اور نہ دنيا قائم ہو سكتى ہے كيونكہ بنى آدم كى مصلحتيں اور ضروريات لوگوں كے اجتماع كے بغير پورى نہيں ہو سكتيں، كيونكہ وہ ايك دوسرے كے محتاج ہيں، اور اجتماع كے ليے كسى بڑے كى ضرورت ہوتى ہے.

حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب تين اشخاص سفر پر نكليں تو اپنے ميں سے كسى ايك كو اپنا امير بنا ليں "

اسے ابوداود رحمہ اللہ نے ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.

اور امام احمد رحمہ اللہ مسند احمد ميں عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كوئى تين اشخاص زمين كے كسى بھى حصہ ميں ہوں تو ان كے ليے حلال نہيں مگر وہ اپنے اوپر كسى ايك كو امير مقرر كر ليں "

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سفر جيسى ضرورت ميں بھى جو كہ ايك قليل سا اجتماع ہے ميں امير بنانا واجب كيا ہے جو كہ باقى سب اجتماعات پر تنبيہ ہے؛ اور اس ليے كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كا كام واجب كيا ہے، اور يہ كام قوت و طاقت اور امارت كے بغير پورا نہيں ہو سكتا.

تو اسى طرح جہاد، عدل و انصاف، حج كرنا، جمعہ اور عيدوں كى ادائيگى، اور مظلوم كى نصرت و مدد، حدود كا نفاذ جيسے وہ سب امور جو اللہ تعالى نے فرض اور واجب كيے ہيں، يہ سب قوت و طاقت اور امارت كے بغير پورے نہيں ہوتے.

اسى ليے روايت كي گئى ہے كہ:

" حكمران اور سلطان زمين ميں اللہ كا سايہ ہے "

اور كہا جاتا ہے:

" ظالم حكمران كے ساتھ ساٹھ برس حكمران كے بغير ايك رات سے بہتر ہيں " اور تجربہ اسے بيان كرتا ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 28 / 390 - 391 ).

اور شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" كسى بھى لشكر كے ليے امام المسلمين كى اجازت كے بغير جنگ كرنا جائز نہيں، چاہے معاملہ جيسا بھى ہو؛ كيونكہ جنہيں جنگ كرنے اور جہاد كرنا مخاطب كيا گيا ہے وہ ولى الامر اور حكمران ہيں، نہ كہ افراد، لوگوں ميں سے افراد اہل حل و عقد كے تابع ہيں، اس ليے كسى كے ليے بھى امام المسلمين كى اجازت كے بغير جنگ اور جہاد كرنا جائز نہيں، ليكن اگر دفاع كا معاملہ ہو تو پھر اجازت كى كوئى ضرورت نہيں، جب دشمن اچانك حملہ آور ہو اور انہيں اس كے شر كا خدشہ ہو تو اس وقت وہ اپنا دفاع كرتے ہوئے دشمن سے لڑ سكتے ہيں، كيونكہ اس وقت لڑائى كرنا متعين ہو چكى ہے.

يہ اس ليے جائز نہيں كہ امر امام كے ساتھ معلق ہے، تو امام المسلمين كى اجازت كے بغير جنگ اور غزوہ كرنا اس كى حدود سے تجاوز اور اس پر انتشار ہے، اور اس ليے بھى كہ اگر لوگوں كے ليے امام المسلمين كى اجازت كے بغير جہاد اور جنگ كرنى جائز ہوتى تو معاملہ افراتفرى كا شكار ہو جاتا، جو چاہتا اپنے گھوڑے پر سوار ہو كر جنگ كرنے نكل جاتا، اور اس ليے بھى كہ اگر لوگوں كے ليے ايسا ممكن ہو جائے تو عظيم فساد كھڑا ہو جائيگا، تو كچھ لوگ تيارى شروع كر ديں كہ وہ دشمن كے خلاف جنگ كى تيار كر رہے ہيں، اور وہ امام المسلمين كے خلاف جنگ كرنے كا ارادہ ركھتے ہوں، يا پھر لوگوں ميں سے كسى گروہ پر بغاوت اور ظلم كرنا چاہتے ہوں جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اگر مومنوں ميں سے دو گروہ آپس ميں لڑ پڑيں تو ان دونوں كے مابين صلح كروا دو الحجرات ( 9 ).

ان تين امور اور اس كے علاوہ دوسرے امور كى بنا پر بھى امام المسلمين كى اجازت كے بغير جہاد كرنا جائز نہيں ہے " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 8 / 22 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب