ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

مسلمان کا کام ہی برائ روکنا ہے

10081

تاریخ اشاعت : 08-05-2010

مشاہدات : 32976

سوال

ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تم میں سےجوبھی برائ دیکھے تووہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے اگر اس کی طاقت نہ ہوتوزبان سے روکے اوراگر اس کی بھی طاقت نہیں تودل سے روکے اوریہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے )
اورایک دوسری حدیث میں ہے جس سے آپ کا تعلق نہ ہو اسے ترک کردو ۔
توہم کس برائ کا انکارکریں اورروکیں اورکس کونہ روکیں ؟
اگرمیں کسی اسلامی ملک میں کوئ اخلاقی برائ مثلا نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کا میل جول وغیرہ دیکھوں توکیا میں انہیں روکوں حالانکہ مجھے علم ہے کہ وہ میری بات نہیں سنیں گے ؟ یا پھر میں اوپر محکمہ والوں کو اس کی اطلاع دوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


اول :

جس چیز کا بھی شریعت میں ثبوت ملتا ہے چاہے وہ آیات ہو‎ں یا احادیث ان کا آپس میں کوئ تعارض نہیں ، اس لیے کہ وہ سب کی سب اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہیں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

اگریہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اورکی طرف سے ہوتا تویقینا اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے النساء ( 82 ) ۔

اوراگرکوئ تعارض پیدا بھی ہوتووہ ہماری عقلوں اور سمجھ میں ہے نہ کہ شرعی نصوص میں ، اوراسی بنا پرعلماء کرام نے مشکل نصوص کوبیان کرنےکا زيادہ اہتمام کیا ہے اورکچھ لوگوں کے ذھنوں میں پیداہونے والے بعض نصوص کے تعارض کا ازالہ بھی کیا ہے ۔

اورسوال میں جوکچھ بیان کیا گيا ہے اس میں بھی الحمدللہ کوئ تعارض نہيں ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

(تم میں سےجوبھی برائ دیکھے تووہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے اگر اس کی طاقت نہ ہوتوزبان سے روکے اوراگر اس کی بھی طاقت نہیں تودل سے روکے اوریہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 49 ) ۔

اوردوسری حدیث میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

( آدمی کے حسن اسلام میں سے ہے کہ وہ ایسی چيز کوترک کردے جس کا اسے کوئ فائدہ اورتعلق نہ ہو( یعنی لایعنی چيزیں ) ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 2317 ) سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر ( 3976 ) حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے الجواب الکافی ص ( 12 )میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

توان دونوں حدیثوں میں کوئ کسی قسم کا تعارض نہیں پایا جاتا ۔

لھذا شریعت کے لیے یہ کسی بھی حال میں ممکن نہیں کہ ایک ہی وقت میں برائ دیکھنےوالے کوبرائ روکنے کاحکم دے اور اسی وقت یہ بھی کہے کہ افضل اوربہتر یہ ہے کہ اسے روکنا ترک کردے ۔

توپہلی حدیث کی حالت دوسری حدیث سے مختلف ہے ۔

اورمندرجہ ذیل آیت سے بھی لوگ ایسا ہی سمجھے تھے :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اے ایمان والو ! اپنی فکر کرو جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تہمارا کوئ نقصان نہیں المائدۃ ( 105 ) ۔

توابوبکرصدیق رضي اللہ تعالی عنہ لوگوں کو اس کے صحیح معنی کی طرف راہمائ فرمائ اوربعد میں علماء کرام رحمہم اللہ تعالی نے بھی اسے بیان کیا

ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :

اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو اے ایمان والو ! اپنی فکر کرو جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تہمارا کوئ نقصان نہیں

اورمیں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے :

جب لوگ ظالم کودیکھیں اور اس کے ہاتھ کونہ پکڑيں ( یعنی ظلم کونہ روکیں ) تو قریب ہے کہ اللہ تعالی ان سب پرعمومی سزانازل کردے ۔

سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2168 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 4338 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 4005 ) اوراس حدیث کو امام ترمذي اورابن حبان رحمہما اللہ تعالی نے صحیح قرار دیا ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ تعالی اس آیت کے فوائد بیان کرتے ہوۓ کہتے ہیں : اے ایمان والو ! اپنی فکر کرو جب تم راہ راست پر چل رہے ہو ۔۔

پانچواں :

امربالمعروف اورنہی عن المنکر کا کام اس طرح کرنا چاہیے جس طرح کہ مشروع ہے جس میں علم و نرمی اور صبر اور حسن مقصد کار فرما ہونا چاہیے ، اوردرمیانہ راہ اختیار کرنا چاہیے اس لیے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے فرمان : اے ایمان والو ! اپنی فکر کرو

اوراس فرمان میں جب تم راہ راست پر ہو شامل ہے ۔

تواس آیت سے یہ پانچ فائدے اس شخص کے لیے حاصل ہوتے ہيں جوامربالمعروف اورنہی عن المنکر کا مامور ہے ۔

اوراس میں ایک اور معنی بھی پایا جاتا ہے :

وہ یہ کہ آدمی کوعلمی اورعملی اعتبارسے اپنی مصلحت کومد نظر رکھنا چاہیے اورجس چيز سے اس کا کوئ تعلق ہی نہیں اس سے ( مالایعنی چيزوں سے ) اعراض کرنا چاہيۓ جیسا کہ صاحب شریعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے :

( آدمی کے حسن اسلام میں سے ہے کہ وہ بےفائدہ چیزوں سےاعراض کرے )

اورخاص کر فضول چيزوں سےاعراض کرے جس میں انسان کے دین ودنیا کے اعتبار سے کوئ ضرورت ہی نہیں اورپھر خاص کر حاسدانہ اورافسری وسرداری کے لیے بات چیت ہو ۔ مجموع الفتاوی ( 14 / 482 ) ۔

اورایک دوسری جگہ پر شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

مومن شخص پر ضروری تو یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کے بارہ میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرے اورانہیں ھدایت دینا تواس کے ذمہ نہیں ہے اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان کا معنی بھی یہی ہے :

اے ایمان والو ! اپنی فکر کرو جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تہمارا کوئ نقصان نہیں

تواھتداء اس وقت پوری ہوتی ہے جب واجب کو ادا کردیا جاۓ اس لیے جب مسلمان شخص اپنے اوپر دوسرے واجبات کی طرح امربالمعروف اورنہی عن المنکرکے واجب کوبھی ادا کرے تو گمراہ ہونے والی کی گمراہی اسے کوئ نقصان نہیں دیتی ۔

اورنہی عن المنکر کا کام کبھی تو دل سے اورکبھی زبان سے اورکبھی ہاتھ سے ہوتا ہے ، بلکہ دل کے ساتھ توبرائ کوہر وقت روکنا چاہیے اس لیے کہ اس کے کرنے سے کوئ ضرر نہيں ہوتا اور جویہ کام دل کے ساتھ بھی نہیں کرتا وہ مومن ہی نہیں ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

( اوردل کے ساتھ برائ روکنا ایمان کا کمزور ترین حصہ ہے ) دیکھیں مجموع الفتاوی ( 28 / 126 - 128 ) ۔

تواس سے یہ پتہ چلا کہ برائ پر انکار اوراسے روکنا مسلمان کا کام ہے اوراسے کا اس حکم بھی دیا گیا ہے اس لیے اسے حسب استطاعت اورمصلحت شرعیہ کے مطابق نہی عن المنکر کا کام کرنا چاہیے ۔

اوروہ چيز جولایعنی ہوتی ہے وہ نہ توواجب ہے اور نہ ہی مستحبات میں ہی شامل ہے ۔

ذیل میں ہم اس حدیث ( آدمی کے حسن اسلام میں سے ہے کہ وہ لایعنی چيزوں سے پرہيز کرے ) کے بارہ میں علماء کرام رحمہم اللہ کے اقوال نقل کرتے ہیں :

ا - شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

( مسلمان ) کوحکم ہے کہ وہ یا توخیروبھلائ کی بات کرے یا پھر خاموش رہے ، تواگر وہ اس خاموشی سے جس کا اسےحکم دیا گیا ہے ہٹ کر فضول باتوں میں لگتا ہے جس میں کوئ خیرو بھلائ کی بات نہيں تواس کا اسے گناہ ہوگا اس لیے کہ یہ مکروہ ہے اورمکروہ اس میں کمی کرے گا ۔

اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

( آدمی کے حسن اسلام میں سے ہے کہ وہ لایعنی چيزوں سے پرہيز کرے )

توجب وہ ایسی چيزمیں جا پڑتا ہے جس کا اسے کوئ فائدہ نہيں اوراس سے اس کا تعلق بھی نہیں تواس کے حسن اسلام میں کمی واقع ہوتی ہے ۔ دیکھیں مجموع الفتاوی ( 7 / 49 – 50 ) ۔

ب – حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی کلمہ میں پریزگاری و ورع کوجمع کرتے ہوۓ فرمایا :

( آدمی کے حسن اسلام میں سے ہے کہ وہ لایعنی چيزوں سے پرہيز کرے )

تواس میں ہروہ کلام ، اورنظر اور سننا پکڑنا اورچلنا اورسوچ وبچار اورسب ایسی ظاہری اورباطنی حرکات شامل ہیں جس میں کوئ فائدہ نہيں تواس طرح یہ کلمہ تقوی ورع میں کافی و شافی ہے ۔

ج - ابراھیم بن ادھم رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

ورع یہ ہے کہ ہر شبہے کو ترک کردیا جاۓ اور سب فضولیات کوترک کرنا ترک مالایعنی ہے ۔

اورسنن ترمذی میں بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا موجود ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ کو فرمایا : تم تقوی و ورع اختیار کرنے والے بن جاؤ تو سب سے زيادہ عبادت گزار بن جاؤ گے ۔ دیکھیں مدارج السالکین ( 2 / 21 ) ۔

د - اورابن رجب حنبلی رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

ترک مالا یعنی یہ ہے کہ : ہر قسم کے مشتبھات ، اورمکروھات ، اورفضول قسم کےمباحات جن کی کوئ ضرورت نہيں ہے انہیں ترک کردیا جاۓ ، اس لیے کہ جب مسلمان کا اسلا م کامل ہو اوراحسان کے درجہ تک جا پہنچۓ تو ان سب اشیاء کی کوکوئ ضرورت نہيں اوریہ سب کچھ مالایعنی میں شامل ہيں ۔

اورمالایعنی سے اکثر طورپرمراد یہ لیا جاتا ہے کہ لغو فضول قسم کی گفتگو سے زبان کو محفوظ رکھا جاۓ ۔ دیکھیں جامع العلوم والحکم ( 1 / 309- 311 ) ۔

ھـ - امام زرقانی رحمہ اللہ تعالی عنہ کاقول ہے :

بعض کا کہنا ہے کہ : لایعنی میں یہ بھی شامل ہے کہ : علوم میں جواہم نہيں انہیں سیکھنا اوراس سے بھی اہم کوترک کردینا یہ مالا یعنی میں شامل ہوتا ہے ، مثلا کوئ اس علم کوسیکھنا چھوڑ دے جس میں اس کے اپنے آپ کی اصلاح ہے اورایسا علم حاصل کرتا پھرے جس سے دوسروں کی اصلاح ہوتی ہو جیسے علم جدل ہے ۔

اوراس میں وہ عذر یہ پیش کرے کہ میری نیت ہے کہ لوگوں کو نفع پہنچایا جاۓ ، تواگروہ اس بات میں سچا ہوتا تو وہ ایسا علم سیکھنے سے ابتدا کرتا جوسب سے پہلے اس کے اپنے دل کی اصلاح کرتا اوراس سے غلط اورمذموم قسم کی صفات کو خارج کرتا ۔

مثلا : حسد وبغض ، ریا کاری اوردکھلاوا ، اوراپنے دوست واحباب پر رعب جمانا اوراپنے آپ کوبڑا سمجھنا اوردوسری مھلک قسم کی صفات ۔

ابن عبدا لبر رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

یہ حدیث جامع کلام پرمشتمل ہے اور بہت ہی کم الفاظ میں بہت ہی زیادہ اورجلیل معانی جمع کردیے گۓ ہیں اوریہ ایسی کلام ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کسی نے بھی نہیں کہی ۔ شرح الزرقانی ( 4 / 317 ) ۔

و - شیخ مبارکپوری رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

ملا علی قاری نے ترک مالایعنی کے معنی میں کہا ہے :

یعنی جوکام قول اورفعل اورنہ ہی نظریاتی اورفکری لحاظ سے اس کے لائق نہ ہو ۔

اوران کا یہ بھی کہنا ہے کہ : مالایعنی کی حقیقت یہ ہے کہ : جوچیز اسی دینی اوردنیاوی ضرورت نہ ہو اورنہ ہی اسے اس کے رب کی رضا میں کوئ نفع دے سکے ، دوسرے لفظوں میں اس طرح کہ جس کے بغیر اس کی زندگی ممکن ہو۔

اوراس کے بغیر بھی اس کی حالت مستقیم رہے ، اوریہ چيز زائد افعال اورفضول اقوال پر مشتمل ہے ۔ دیکھیں : تحفۃ الاحوذی ( 6 / 500 ) ۔

دوم :

اور آپ کے منع کرے والی ہر وہ چيز ہے جس کی شریعت اسلامیہ نے قباحت بیان کی ہے اوراس کے کرنے والے کے برے انجام کا بھی ذکر کیا ہے مثلا :

زنا کاری وبدکاری ، سود خوری ، کسی حرام کردہ چيز کی طرف دیکھنا ، اورحرام کردہ کوسننا ، داڑھی منڈانا ، سلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانا ، قطع رحمی کرنا ، اوردین میں بدعات ایجادکرنا ، وغیرہ ۔

اورنہی عن المنکر میں یہ شرط نہیں کہ وہ صاحب سلطہ اورطاقت ہی ہو تا کہ اس برائ کو ہاتھ سے روک سکے ، اور نہ ہی اس میں عالم ہونے کی شرط ہے تا کہ اس برائ کوزبان سے منع کرسکے ، بلکہ صرف اتنا ہی کافی ہے کہ اسے اس برائ کوروکنے کی قدرت ہو اوراس کے منع کرنے سے کوئ اس انکار سے بڑہ کر کوئ فساد اوریابڑي برائ پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو ، اس یہ ہی کافی ہے کہ آپ کو علم ہو کہ یہ کام اسلام میں منع ہے توآپ کواسے اپنی زبان سے منع کردیں ۔

اوررہا مسئلہ دل کے ساتھ برائ روکنے کا تو وہ اس طرح ہے کہ آپ اس برائ سے بغض رکھیں اوراس برائ والی جگہ سے اٹھ جائيں ۔

سوم :

اورآپ نے سوال میں جو یہ پوچھا ہے کہ کچھ برائيوں کے دیکھنے کے بعد کیاميں اسے خود روکوں یا کہ حکومتی اداروں کو مطلع کروں ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ :

یہ برائ اور برائ کرنے والے کے لحاظ سے ہے ، اگرآپ ایسے شخص سے کوئ برائ دیکھیں جسے مہلت دینا مناسب نہ ہو حتی کہ آپ اس کےبارہ میں حکومتی ادارے کومطلع کریں ، تواس صورت میں آپ پرواجب ہے کہ آپ وقت کی بچت کرنے ہوۓ اسے روکیں تا کہ برائ کرنے والا بھاگ نہ جاۓ ۔

اوراگر برائ بہت بڑی اورعظیم ہو جسے صرف آپکا روکنا اوربدلنا ممکن نہيں توپھرآپ حکمومتی اداروں تک اطلاع پہنچائیں ۔

مقصد یہ ہے کہ وہ برائ ختم ہونی چاہیے چاہے وہ آپ کے ہاتھ سے ختم ہویا کسی اورکے ہاتھ سے تواگر اپنے ہاتھ سے نہیں روک سکتے توپھرزبان سے روکیں آّپ کویہ نہيں سوچنا چاہیے کہ وہ سنتے ہیں یا آپ سے اعراض کرتے ہیں بلکہ آپ پرتو صرف اس کی تبلیغ ہے ۔

اورہوسکتا اللہ تعالی آپ کی کلام کی بنا پران میں سے کسی ایک کے دل میں ھدایت ڈال دے ، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ شیطان آپ کے ذھن میں یہ دلیل ڈالے کہ وہ تو آپ کی بات ہی نہیں سنیں گے اس لیۓ آپ برائ کونہ روکیں

واللہ اعلم  .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد