الحمد للہ.
اول:
اگر کوئی مؤخر ادائیگی پر کوئی چیز خریدے تو یہ قیمت خریدار کے ذمے قرض بن جائے گی، تو ایسی صورت میں مقررہ وقت سے تاخیر ہونے پر منافع، یا اضافی رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ حرام سود ہے چاہے یہ لین دین کوئی مسلمان کرے یا کافر کرے؛ کیونکہ سود کو حرام قرار دینے والی نصوص عام ہیں۔
جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (101080 ) میں ذکر کر آئے ہیں۔
اسلامی کانفرنس تنظیم کے تحت اسلامی فقہ اکادمی کی جانب سے دوحہ میں منعقد ہونے والے چودھویں اجلاس میں یہ قرار داد پیش کی گئی کہ:
"سوم: اگر مقروض مقررہ وقت پر اقساط کی ادائیگی نہ کر سکے تو اس سے قرض کی اصل رقم سے کسی بھی قسم کا اضافہ طلب کرنا جائز نہیں ہے چاہے اس اضافے کی شرط پہلے سے طے شدہ ہو یا نہ ہو؛ کیونکہ یہ حرام سود ہے۔" ختم شد
سود کے گناہ میں : سود لینے والا اور دینے والا دونوں ہی شامل ہوتے ہیں، جیسے کہ صحیح مسلم: (1598) میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے پر، کھلانے والے پر، لکھنے والے، اور دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور مزید فرمایا کہ یہ سب برابر ہیں۔
دوم:
اگر دکاندار قسطوں کی مقررہ وقت سے تاخیر کی بنا پر جرمانے کی شرط پیشگی رکھتا ہے تو پھر اس کے ساتھ یہ معاہدہ کرنا ہی سرے سے ناجائز ہے، چاہے خریدار وقت پر ادائیگی کرنے کے لیے پر عزم ہو، اس کی دو وجوہات ہیں:
پہلی: اس معاہدے میں شرکت کرنے سے سودی شرط کا اقرار ہے جو کہ حرام ہے۔
دوسری وجہ: عین ممکن ہے کہ وہ وقت پر ادائیگی نہ کر سکے اور سود میں ملوث ہو جائے؛ کیونکہ انسان ادائیگی کرنا بھول سکتا ہے، یا بیمار یا سفر پر ہونے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالی سب کو اپنے پسندیدہ اور رضا کے موجب عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ اعلم