الحمد للہ.
لعان دو وجہ كى بنا پر مشروع ہے:
پہلى وجہ:
جب خاوند اپنى بيوى پر زنا كى تہمت لگائے، اور اس كے پاس چار گواہ نہ ہوں، تو خاوند كو حد قذف سے بچنے كے ليے لعان كرنے كا حق حاصل ہے.
دوسرى وجہ:
وہ اپنے سے بچے كى نفى كرنا چاہتا ہو.
اس ميں اصل دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:
جو لوگ اپنى بيويوں پر بدكارى كى تہمت لگائيں اور ان كے پاس اپنے علاوہ اس كا كوئى اور گواہ نہ ہو تو ايسے لوگوں ميں سے ہر ايك كا ثبوت يہ ہے كہ چار مرتبہ اللہ كى قسم كھا كر كہيں كہ وہ سچوں ميں سے ہيں .
اور پانچويں مرتبہ كہے كہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ تعالى كى لعنت ہو .
اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہو سكتى ہے كہ وہ چار مرتبہ اللہ كى قسم كھا كر كہے يقينا اس كا خاوند جھوٹ بولنے والوں ميں سے ہے.
اور پانچويں دفعہ كہے كہ يقينا اس پر اللہ تعالى كا غضب ہو اگر اس كا خاوند سچوں ميں سے ہو النور ( 6 - 9 ).
ابن كثير رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:
" اس آيت كريمہ ميں خاوند كے ليے نكلنے كى راہ بيان كى گئى ہے كہ جب ان ميں سے كوئى اپنى بيوى پر بدكارى كى تہمت لگائے، اور اس كے ليے اسے ثابت كرنا اور گواہ پيش كرنے مشكل ہوں تو پھر وہ بيوى كے ساتھ لعان كر سكتا ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے حكم ديا ہے.
وہ اس طرح كہ وہ بيوى كو قاضى اور حكمران كے سامنے لا كر اس كے ساتھ اس تہمت پر لعان كرے، تو قاضى اور حاكم چار گواہوں كے مقابلہ ميں اسے چار بار اللہ كى قسم اٹھوائے كہ وہ سچ بول رہا ہے، يعنى اس نے جو اس پر زنا كى تہمت لگائى ہے وہ اس ميں سچا ہے، اور پانچويں بار يہ كہے كہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ كى لعنت ہو.
جب يہ كہہ چكے تو اس لعان كى بنا پر شافعى حضرات اور علماء كى ايك جماعت كے ہاں عورت اس كے نكاح سے نكل جائيگى اور اس پر ہميشہ كے ليے حرام ہو جائيگى، اور خاوند اسے اس كا مہر ادا كريگا، اور اس عورت پر زنا كى حد واجب ہو گى.
اور اس سے يہ حد اس وقت تك ختم نہيں ہو سكتى جب تك وہ بھى لعان نہ كر لے، اگر وہ بھى پانچ قسميں اٹھائے، چار بار كہے كہ اللہ كى قسم وہ جھوٹا ہے، اور پانچويں بار كہے كہ اگر وہ ( خاوند ) سچا ہو تو اس ( مجھ ) پر اللہ كا غضب ہو " انتہى.
اور رہا بيوى كا مسئلہ كہ جب وہ اپنے خاوند پر زنا كى تہمت لگائے اور چار گواہ پيش نہ كرے تو اسے حد قذف لگائى جائيگى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ لوگ جو پاكدامن عورتوں پر زنا كى تہمت لگائيں پھر چار گواہ پيش نہ كر سكيں تو انہيں اسى كوڑے لگاؤ، اور كبھى بھى ان كى گواہى قبول نہ كرو، يہ فاسق لوگ ہيں النور ( 4 ).
اور يہ آيت تہمت ميں مرد اور عورت سب كو شامل ہے.
امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ سبحانہ و تعالى نے آيت ميں عورتوں كا ذكر كيا ہے اس ليے كہ وہ اہم ہيں، اور عورتوں پر فحاشى كى تہمت زيادہ شنيع اور نفس كے ليے بہت زيادہ ناپسند ہے، اور مردوں پر زنا كى تہمت بالمعنى اس آيت ميں داخل ہے، اور امت كا اس پر اجماع ہے " انتہى.
اور الماوردى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اگر بيوى اپنے خاوند پر زنا كى تہمت لگائے تو عورت كو حد لگائى جائيگى، اور وہ لعان نہيں كر سكتى " انتہى.
ديكھيں: الاحكام السلطانيۃ ( 287 ).
اور اگر بيوى اپنے خاوند كے زنا كرنے كا علم ركھتى ہو اور اس كے پاس كوئى دليل اور گواہى يعنى چار گواہ نہ ہوں، تو بيوى كو چاہيے كہ وہ اپنے خاوند كو وعظ و نصحيت كرے اور اسے سمجھائے، اور اللہ كا خوف دلائے، اور اگر پھر بھى خاوند اپنى گمراہى ميں پڑا رہے تو عورت اس سے طلاق كا مطالبہ كر سكتى ہے، يا اس سے خلع لے لے، كيونكہ ايسے خاوند كے ساتھ رہنے ميں كوئى خير و بھلائى نہيں، اور اس ليے بھى كہ اس سے مجامعت كرنے ميں نقصان اور ضرر ہو سكتا ہے.
واللہ اعلم .