منگل 18 جمادی اولی 1446 - 19 نومبر 2024
اردو

عقد نكاح كے ايك روز بعد طلاق كے وسوسہ كا شكار ہو گيا

105994

تاریخ اشاعت : 05-03-2012

مشاہدات : 7341

سوال

ميرا سوال طلاق ميں وسوسہ كے متعلق ہے: ميرا ايك لڑكى سے عقد نكاح ہوا ہے اور ميں اس سے بہت محبت كرتا ہوں عقد نكاح كے ايك روز بعد شطيان نے نماز ميں مجھے طلاق كا وسوسہ ڈالا كام پر ہوؤں يا گھر ميں يا بيت الخلا ميں يا سويا ہوا ہوں يہى وسوسہ رہتا ہے.
ايك دن ميں العفاسى چينل ديكھ رہا تھا جس ميں ازدواجى زندگى كے بارہ ميں ايك ويڈيو كلپ تھا جس ميں خاوند اور بيوى كے مابين پيدا ہونے والى مشكلات بيان ہوئى ہيں ايك شخص كہنے لگا: ميں جانے والا ہوں تو ميں نے اسے سنا اور آواز كے ساتھ دھرايا تجھے طلاق، ليكن مجھے كوئى علم نہيں اور نہ ہى ادراك تھا، اللہ ميرى نيت كو جانتا ہے ميں نے بغير شعور كے يہ الفاظ بولے.
اور ميرى نيت ميں ميرى بيوى كے متعلق كوئى چيز بھى نہ تھى بلكہ ميں تو اسے محبت كرتا اور چاہتا ہوں اس سلسلہ ميں شرعى حكم كيا ہے جس حالت ميں يہ الفاظ بولے ہيں آيا طلاق واقع ہوئى ہے يا نہيں اور اس وسوسہ كا علاج كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سے دعا ہے كہ آپ كو شفا يابى و عافيت سے نوازے.

آپ نے جس طلاق كا ذكر كيا ہے وہ طلاق واقع نہيں ہوئى.د

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" وسوسہ ميں مبتلا شخص كى طلاق واقع نہيں ہوتى چاہے وہ زبان سے اس كے الفاظ بھى ادا كر لے جب تك وہ طلاق كا قصد اور ارادہ نہ ركھتا ہو، كيونكہ يہ الفاظ تو وسوسہ والے شخص سے بغير قصد اور ارادہ كے صادر ہوئے ہيں، بلكہ اس كى عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے، اور وہ اس وسوسہ كى قوت دافع اور مانع كى قوت كى قلت كى بنا پر مجبور ہے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" عقل پر پردہ پڑا ہونے كى صورت ميں طلاق نہيں ہوتى "

اس ليے اگر وہ حقيقى طور پر اطمنان كے ساتھ طلاق كا ارادہ نہ كرے تو اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى، تو جس چيز پر ا سكا قصد اور ارادہ ہى نہيں اور وہ مجبور ہے تو اس سے طلاق واقع نہيں ہو گى " انتہى

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 277 ).

آپ كو اپنے وسوسہ كے علاج كے ليے اللہ تعالى كا كثرت سے ذكر كرنا چاہيے اور نيك و صالح اعمال بھى كثرت سے كريں، اور وسوسہ سے آپ اعراض كريں اور اس پر توجہ مت ديں، اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 41027 ) اور ( 10160 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ وسوسہ اعوذ با اللہ من الشيطان الرجيم پڑھنے سے زائل ہو گا، اور بندے كى انتہاء يہ ہونى چاہيے كہ جب اسے وسوسہ يعنى شيطان يہ كہے كہ: تم نے چہرہ نہيں دھويا تو وہ كہے: كيوں نہيں ميں نے اپنا چہرہ دھويا ہے، اور جب اس كے دل ميں يہ بات پيدا ہو كہ اس نے نيت نہيں كي تو وہ تكبير كہے اور دل سے كہے كيوں نہيں ميں نے نيت كى اور تكبير كہى ہے، چنانچہ وہ حق پر ثابت قدم رہے اور اسے جو وسوسہ آ رہا ہے اسے دور كر دے اور اس كى طرف توجہ مت دے، تو جب شيطان اس كى قوت و ثابت قدمى ديكھےگا تو خود ہى پيچھے ہٹ جائيگا.

وگرنہ جب شيطان بندے ميں شكوك و شبہات كو قبول كرنے والا ديكھتا ہے اور وسوسہ كى طرف التفات كرنے والا پاتا ہے تو اس طرح كى اشياء اس ميں پيدا كرتا ہے جس كو دور كرنے سے بندہ عاجز آ جاتا ہے، اور اس كا دل شيطان كے وسوسوں كى آماجگاہ بن جاتا ہے، جنوں اور انسانوں كى باتوں كو مزين كرنا شروع كر ديتا ہے، اور اس طرح وہ اس سے دوسرے كى طرف منتقل ہو جاتا ہے حتى كہ شيطان اسے تباہى كے دھانے پر لے آتا ہے " انتہى

ديكھيں: درء التعارض ( 3 / 318 ).

اس ليے آپ اپنے آپ سے وسوسہ كو دور كريں اور اس كى طرف توجہ بھى نہ ديں تو ان شاء اللہ اللہ كے حكم سے يہ زائل ہو جائيگا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب