جمعرات 28 ربیع الثانی 1446 - 31 اکتوبر 2024
اردو

آيۃ { والقمرقدرناہ منازل } کا معنی

سوال

السلام علیکم میں اسلام کی طرف مائل ہوں ،میں نے 1994 کے او‏ئل میں ہی قرآن اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ شروع کیا تواسلام میں عظیم قسم کی روحانیت اور دلی سکون پایا ۔
عنقریب میں اسلامی دروس بھی لینا شروع کردوں گی کیونکہ میں نے اسلام قبول کرنے کی پلاننگ کررکھی ہے ، میں سورۃ یس کی ایک آیت کے معنی میں متاکد نہیں آیا وہ صحیح ہے یانہیں امید ہے کہ آپ تعاون فرمائيں گے وہ آیۃ اللہ تعالی کا فرمان ہے والقمر قدرنا ہ منازل ( یس 39 ) ۔
آپکے اس تعاون پرمیں آپکی ممنون رہوں گی اوراللہ تعالی سے دعاگوہوں کہ وہ آّپ کوھدایت نصیب فرماۓ اور اپنی حفاظت میں رکھے اور آپ کے اس تعاون میں برکت فرماۓ جوآپ پوری دنیا کے کونے کونے پر لوگوں کے جوابات دے کرکرتے ہیں ، اللہ تعالی آپ کوجزاۓ خیر عطافرماۓ ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.


اول :

میں سائلہ کومبارکباد دینا چاہتاہوں کہ وہ دین اسلام کے صحیح ہونےکا اطمنان کرچکی ہے ، اوریہی دین اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جونفس کی ضروریات پوری کرتا اور اس کے اطمنان اورسعادت کا باعث ہے ، اورآپ کے سوال سے بھی ظاہرہوتا ہے کہ آپ اسلامی مطالعہ سے کافی متاثرہوئ ہیں بلکہ اگر آپ ہميں یہ نہ بتاتی کہ آّپ ھندومذھب رکھتی ہیں توہم آپ کومسلمان ہی تصورکرتے اس لیے کہ آپ نے سوال میں اسلوب ہی ایسا اختیارکیا ہے ۔

میں آپ کو سب سے اہم نصیحت یہ کرتا ہوں کہ آپ جتنی جلدی ہوسکے اسلام قبول کرلیں اوردیرنہ کریں اورپھرجس شخص کے لیے یہ سب حقائق واضح ہوچکے ہوں تووہ اسلام قبول کرنے میں دیرکيوں کرے ؟

یہاں پر ایک اور چیز پرتنبیہ کرنا بہترلگتا ہے کہ کچھ لوگ اسلام قبول کرنے میں تاخیرکرتے ہیں تاکہ قبول اسلام سے قبل وہ کچھ احکام کا علم حاصل کرلیں مثلا نماز کی کیفیت وغیرہ اس لیے کہ ان کا گمان یہ ہوتا ہے کہ تعلیم اسلام سے قبل اسلام قبول کرنا صحیح نہیں توان کا یہ گمان درست نہيں ۔

بلکہ جب انسان پر حق واضح ہوجاۓ تو اس پرواجب اورضروری ہے کہ وہ اس حق کی اتباع اورپیروی کرتے ہوۓ فوری طورپر اسلام قبول کرلے ، پھر کتاب سنت کی تعلیم حاصل کرے اور علم وعمل کی سیڑھی حسب استطاعت وقدرت اور بتدریج چڑھے اس لیے کہ انسان کواس کا علم نہیں کہ کب اس کی موت اس سے وفا کرجاۓ ، اس لیے اگر انسان اللہ تعالی کواسلام قبول کیے بغیر ملا تووہ ہلاکت زدہ لوگوں میں سے ہوگا ۔

پھریہ بات بھی ہے کہ انسان کواجروثواب اور نیکی اس وقت تک حاصل ہی نہیں ہوتی جب تک وہ اسلام قبول نہیں کرتا جب اسلام قبول کرنے میں تاخیرکی جاۓ گی تو اس کی بہت ساری نیکیاں اورحسنات بھی اس سے فوت ہوجائيں گي ، اور عمرکے گذرے ہوۓ وقت اور حصے کا واپس آنا ناممکن ہے ۔

تواب ہم آپ کے سوال کی طرف آتے ہيں – اے عقل منداور اللہ کے حکم سے حق کی موافقت کرنےوالی سائلہ – سورۃ یس کی آیت نمبر 39 کے معنی کے متعلق اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعالی فرماتےہيں :

اورہم نےچاند کی منزلیں مقرر کررکھی ہیں یعنی ہم نے اس کا ایک اورچلنا بھی مقررکیا ہے ، جس طرح سورج سے دن رات کا علم ہوتا ہے اسی طرح چاند سے مہینوں کاعلم ہوتا ہے ۔

جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

وہ اللہ ہی ہے جس نے سورج کوروشن اور چاندکونورانی بنایا اور ان کی منزلیں مقررکردیں تاکہ تمہیں سالوں کی تعداد اورحساب معلوم ہوسکے

تو اللہ تعالی نے سورج کوایک خاص اورچاندکواس کے لیے خصوصی روشنی عنائت فرمائ اور ان دونوں کے مدار اورچلنےمیں فرق رکھا توسورج روزانہ ایک ہی روشنی میں صبح طلوع ہوکردن کے آخرميں غروب ہوجاتا ہے ، لیکن موسم گرمااورسرما میں اس کے طلوع وغروب ہونے کی جگہیں مختلف ہوتی ہیں جس کے سبب سے دن لمبے اورراتہیں چھوٹی اور پھر راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہوجاتے ہیں ۔

اللہ تعالی نےدن کے وقت سورج کی بادشاہی رکھی ہے اوروہ دن کا ستارہ ہے ، اور چاند کی منزلیں مقرر کی ہیں وہ قمری مہینہ کی پہلی رات طلوع ہوتا ہے توبہت ہی باریک اور مدھم روشنی والا پھر دوسری رات اس کی روشنی زیادہ تھوڑا اونچا بھی ہوتا ہے ، تو جیسے جیسے اونچا ہوتا جاتا ہے اس کی روشنی بھی زيادہ ہوتی جاتی ہے چاہے اس کی روشنی سورج سے ہی حاصل ہوتی ہے حتی کہ قمری مہینہ کی 14چودويں رات اس کی روشنی مکمل ہوتی ہے ۔

پھراس کے بعد مہینہ کے آخرتک اس میں کمی واقع ہونا شروع ہوتی ہے حتی کہ یہ ایک سوکھی ہوئ پرانی ٹہنی کی مانند ہوجاتا ہے ، ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ کھجور کی اصل ٹہنی ہے ۔

امام مجاھدرحمہ اللہ کہتےہیں کہ العرجون القدیم کا معنی سوکھی ہوئ ٹہنی ہے تو ابن عباس رضي اللہ نے کھجور کی تازہ ٹہنی جب پرانی اورخشک ہوکرٹیڑھی ہوجاۓ مراد لی ہے ۔ مراجع تفسیر ابن کثير ۔

مہینہ کےآخرمیں چاند کی سوکھی ہوئ پرانی ٹہنی سے یہ تشبیہ بلاغت کی چوٹی اور تعبیر کے جمال کی حسین امتزاج ہے ۔

واللہ تعالی اعلم  .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد