الحمد للہ.
" اگر آپ نے اپنی والدہ کو رمضان میں عمرہ کروایا تو آپ پر کوئی کفارہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ آپ نے جس وقت میں عمرہ کروانے کی نذر مانی تھی اس سے بھی بہتر وقت میں عمرہ ادا کیا ہے، یہ تو ایسے ہے کہ کوئی مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کی نذر مانے، اور پھر مسجد حرام یا مسجد نبوی میں نماز پڑھ لے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہوتا؛ کیونکہ اس نے نذر مانی ہوئی جگہ سے افضل جگہ پر نذر پوری کی ہے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ اس شخص پر کوئی کفارہ بھی نہیں ہوگا، چنانچہ جابر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ: "ایک شخص نے فتح مکہ کے دن کہا کہ: "اللہ کے رسول! میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کے ہاتھوں مکہ فتح کروا دیا تو میں مسجد اقصی میں نماز پڑھوں گا" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: (یہاں [بیت اللہ میں]پڑھ لو ۔) اس نے پھر سوال کیا، تو آپ نے دوبارہ فرمایا: (یہاں [بیت اللہ میں]پڑھ لو ۔) اس نے پھر ایک اور مرتبہ سوال کیا، تو آپ نے تیسری بار فرمایا: (پھر تمہاری مرضی)۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابو داود نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
اور اگر اس کی والدہ خود ہی عمرہ ادا کرنے سے رک جائیں اور عمرہ نہ کریں، تو بھی اس پر کفارہ واجب نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس نے اپنا فرض نبھایا ہے، اور عمرہ کرنے سے انکار اس کی والدہ نے کیا ہے۔
اللہ تعالی عمل کرنے کی توفیق سے نوازے۔
اللہ تعالی دورد و سلام نازل فرمائے ہمارے نبی محمد ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر" انتہی
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
شیخ عبد العزیز بن عبد الله بن باز ، شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ عبد الله بن غدیان ۔.