الحمد للہ.
بيمارى شديد ہونے كى صورت ميں آپ نے روزے نہ ركھ كر اچھا عمل كيا ہے، اور اسى طرح جب آپ نے روزہ ركھنے كى استطاعت محسوس كى تو روزہ ركھ كر بھى بہتر عمل كيا ہے، ليكن بہتر تو يہى تھا كہ آپ ڈاكٹر سے مشورہ كرتے، جب آپ نے اس دن كا روزہ ركھ ليا اور آپ كو روزہ كى بنا پر كوئى نقصان اور ضرر نہيں ہوا تو آپ كے ليے وہ روزہ مكمل كرنا لازم تھا.
روزے كى حالت ميں خاوند كے ليے بيوى سے دل بہلانے ميں كوئى مانع نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اسے روزہ ٹوٹنے كا خدشہ نہ ہو تو پھر ، ليكن اگر اسے اپنے آپ پر كنٹرول نہ ہو اور روزہ خراب ہونے كا خدشہ ہو تو پھر ايسا كرنا جائز نہيں.
علامہ مصطفى الرحيبانى حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر كسى كو يہ گمان ہو كہ اسے انزال ہو جائيگا تو بغير كسى اختلاف كے اس كے ليے بوسہ لينا، اور معانقہ كرنا بغل گير ہونا اور بار بار بيوى كو ديكھنا حرام ہے " انتہى
ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 2 / 204 ).
چنانچہ اگر آپ نے اپنى بيوى سے اس صورت ميں دل بہلايا كہ آپ كو روزہ ٹوٹنے كا كوئى خدشہ نہ تھا تو پھر آپ پر كوئى گناہ نہيں، چاہے روزہ ٹوٹ بھى گيا.
ليكن اگر آپ كو يہ گمان تھا كہ ايسا كام كرنے سے آپ كو انزال ہو جائيگا تو آپ كو بيوى سے دل بہلانے ميں گناہ ہوا ہے اور آپ كو اس سے توبہ و استغفار كرنى چاہيے.
ليكن روزہ دونوں حالتوں ميں ہى فاسد ہو جائيگا، كيونكہ آپ كا انزال ہو گيا تھا، چاہے آپ نے روزہ توڑنے كى نيت كى تھى يا نہيں.
شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب خاوند اپنى بيوى سے ہاتھ كے ساتھ مباشرت كرے اور يا چہرے كے ساتھ اس كا بوسہ لے يا شرمگاہ كے ساتھ بغير دخول كيے مباشرت كرے اور اس كا انزال ہو جائے تو اس كا روزہ ٹوٹ جائيگا، اور اگر انزال نہ ہو تو اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 388 ).
آپ كو اس روزے كى جگہ ايك دن كا روزہ بطور قضاء ركھنا ہو گا، اور آپ پر كفارہ نہيں.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب بغير جماع كے كسى نے روزہ توڑا ہو يعنى كھا پى كر يا پھر مشت زنى كر كے، اور انزل تك لے جانے والى مباشرت تو اس پر كوئى كفارہ نہيں؛ كيونكہ نص ميں تو جماع كا آيا ہے اور يہ اشياء اس معنى ميں نہيں " انتہى
ديكھيں: المجموع ( 6 / 377 ).
واللہ اعلم .