الحمد للہ.
تہمت لگانے کی سزا اسّی (80) کوڑے ہے، اسکی دلیل فرمانِ باری تعالی میں ہے:
(وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً)
ترجمہ: اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کرسکیں انھیں اسی کوڑے لگاؤ ۔ النور/4
چنانچہ اگر کسی شخص نے پاکباز شخص پر تہمت لگائی تو تہمت لگانے والے پر تہمت کی سزا واجب ہو جاتی ہے۔
اور کچھ حالات میں تہمت لگانے والے کی حد ختم ہوجاتی ہے:
پہلی حالت: وہ چار گواہ لے آئے جو ملزم کے بارے میں زنا کرنے کی گواہی دے دیں، اسکی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً)
ترجمہ: اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کرسکیں انھیں اسی کوڑے لگاؤ۔ النور/4
دوسری حالت: کہ ملزم خود ہی زنا کا اعتراف کر لے، اس بات پر علماء کا اتفاق ہے دیکھیں : "المغنی" (12/386)
تیسری حالت: اگر خاوند خود اپنی بیوی پر تہمت لگائے، تو ایسی حالت میں خاوند لعان کے ذریعے حد کو ختم کروا سکتا ہے، دلیل فرمانِ باری تعالی :
(وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ * وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنْ الْكَاذِبِينَ)
ترجمہ: اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے اپنے سوا ان کے پاس گواہ بھی کوئی نہ ہو تو ان میں سے ایسے شخص کی شہادت یوں ہوگی کہ وہ چار دفعہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ سچا ہے [6]اور پانچویں دفعہ یوں کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ النور6، 7
چنانچہ جب ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان لعان کروایا تھا، اور اُسکے بعد ہلال کو تہمت کی سزا نہیں دی۔ جیسے کہ مسلم (1496) میں ہے۔
چوتھی حالت: ملزم اپنا حق خود ہی معاف کردے، اور تہمت لگانے والے پر حد لگانے کا مطالبہ ہی نہ کرے، اور اسکی تفصیل سوال نمبر (112116)کے جواب میں گزر چکی ہے۔
چنانچہ مندرجہ بالا بیان کے بعد اگر کسی نے جھوٹی تہمت لگائی، تو اسکےلئے حدّ قذف ختم کرنے کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معذرت کرے، اور معافی مانگے، چنانچہ اگر تو وہ معاف کردے تو ، اور اگر وہ تہمت کی حد لگانے کا مطالبہ کرے تو یہ اُسکا حق ہوگا۔
واللہ اعلم .