الحمد للہ.
عورت پراپنے دینی معاملات اوراپنی زندگی میں نفع مند امور سیکھنے ضروری ہيں تا کہ وہ ایک اچھی اورسعادت مند بیوی اورمربی ماں کا کردار ادا کرسکے ، پھر اگر وہ اپنے اندرقدرت رکھتی ہے اورحالات اس کے لیے تیار ہوں تووہ دوسرے علوم بھی سیکھ سکتی ہے ۔
اسے تدریس کے لیے مدرس بننے میں بھی کوئي حرج نہیں چاہے وہ گھر میں تدریس کا کام کرے یا پھر لڑکیوں کے سکول میں ۔
عورت کے لیے میڈیکل اورطب کی تعلیم حاصل کرنی بھی جائز ہے بلکہ خاص کرعورتوں کے امراض کے علاج کے لیے اسے لیڈی ڈاکٹر بننا بھی جائز ہے یا پھر وہ عورتوں کے لیے نرس بھی بن سکتی ہے تا کہ عورتیں مرد ڈاکٹروں کے پاس جانے پر مجبور نہ ہوں ۔
عورت کسی دوسرے کی طرف سے کسی بھی معاملہ میں وکیل بھی بن سکتی ہے ، تواس بنا پر وہ وکیل کا پیشہ بھی اختیار کرسکتی ہے اس لیے کہ وکیل کا کام مقدمات میں اپنے موکل کی پیروی کرنا ہے جوکہ عورت کے لیےبھی جائز ہے ۔
لیکن دور حاضرمیں وکالت کا پیشہ ایک غیر سلیم اورغلط راہ اختیار کر چکا ہے ،( جس میں جھوٹ سب سے زيادہ بولا جاتا ہے ) اوراس کے ساتھ ساتھ وکیل کا اپنے موکل کےمخالف کے ساتھ اختلاط اورججوں کے ساتھ میٹنگ بھی کرنا ہوتی ہے اورعورت کوان سب چيزوں کی ممانعت ہے الا یہ کہ وہ سب بھی عورتیں ہی ہوں ۔
لھذا اس وجہ سے جب تک یہ صورت اورحالت ہوعورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ وکالت کا پیشہ اختیار کرے اوروکیل بنے ۔
واللہ تعالی اعلم .