الحمد للہ.
جس شخص کو یقین ہو کہ اسلام دائمی اور سرمدی شریعت ہے تو اسے اسلامی احکامات پر کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہوتا، نہ ہی شرعی ممنوعات پر اسے کوئی اعتراض ہوتا ہے؛ کیونکہ اس شخص کا یقین ہی اتنا ہوتا ہے کہ اسے کسی بھی اسلامی حکم یا ممانعت کی حکمت تلاش کرنی پڑے، اور اس کا سبب ٹٹولے، ہم نے اس قسم کے اعتراضات اور اشکالات صرف انہی لوگوں کی طرف سے دیکھے ہیں جو اس عظیم شریعتِ اسلامیہ سے نابلد ہوتے ہیں۔
آپ اس کو یوں سمجھیں کہ: اگر کوئی شخص کسی طبیب اور معالج پر مکمل بھروسا رکھتا ہو، تو یہ شخص اس طبیب اور معالج کے طبی اور پرہیز پر مبنی مشورے کو آنکھیں بند کر کے تسلیم کرتا ہے اور اسے من و عن پورا کرتا ہے، اس کی وجہ صرف اور صرف اس شخص کا اعتماد اور بھروسا ہے کہ اس طبیب نے یہ مشورہ اپنے تجربے اور حاذق ہونے کی وجہ سے دیا ہے، ایسا شخص ڈاکٹر کے مشورے پر خود تحقیق شروع نہیں کرتا کہ اس نے یہ مشورہ کیوں دیا ہے اور کس لیے دیا ہے! یا اس ڈاکٹر نے فلاں چیز سے کیوں روکا ہے! یہ مثال صرف سمجھانے کے لیے ہے وگرنہ اللہ تعالی کے اوصاف اعلی ترین ہیں۔ چنانچہ ہمارا اپنے رب تعالی پر بھروسا اور اعتماد اتنا محکم اور مضبوط ہے کہ کسی بھی مخلوق چاہے وہ حاذق طبیب ہی کیوں نہ ہو اس کے ساتھ اس اعتماد کا موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ موازنہ ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ خالق اور مخلوق کا آپس میں موازنہ کیا جائے؟ یا معبود اور بشر کا باہمی موازنہ کیا جائے؟ اس کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے!
اس بات کی تائید امام ابن قیم رحمہ اللہ کی بات سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے شریعت میں طہارت اور صفائی ستھرائی کی حکمتیں بیان کرنے کے بعد کہی کہ:
“اگر اس طرح کی باتیں “بقراط” اور دیگر اسی پایہ کے لوگ کرتے تو ان کے پیروکار اس کی اس بات پر من و عن عمل کے لیے تیار ہو جاتے، بلکہ ایسی ہدایات دینے پر اس کی عظمت اور شان کے قصیدے گاتے ، اور پھر ان ہدایات کے متعلق حکمتیں اور فوائد بھی خوب جستجو کر کے نکال لاتے۔” ختم شد
” شفاء العليل ” ( ص 230 )
دوم:
شریعت میں طہارت اور صفائی کے حکم سے متعلق حکمتوں کو تلاش کرنے لگیں تو یہ بہت زیادہ ہیں، یہاں ہماری طہارت اور صفائی سے مراد : گندگی اور نجاستوں سے پاکی، وضو اور غسل سب چیزیں ہیں، ان کی درج ذیل حکمتیں ہیں:
1-طہارت اور صفائی ستھرائی فطرت کے عین مطابق امور ہیں اور اللہ تعالی نے انسان کو فطری طور پر صفائی پسند بنایا ہے، پھر دین اسلام کے فطری دین ہونے کے متعلق بھی شک و شبہ نہیں ؛ اسی لیے تو اسلام “سنن الفطرہ” یعنی فطری امور کا خیال رکھنے کی تاکید کرتا ہے، چنانچہ جو کام فطری طور پر کرنے والے ہیں اسلام انہیں کرنے کی تاکید کرتا ہے، اور جن کاموں سے رکنا فطری طور پر مطلوب ہے اسلام ان سے روکتا ہے۔ لہذا چہرہ دھونا، ناک ، منہ، اور ہاتھ صاف رکھنا، غسل کرنا، استنجا کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں جنہیں کرنے کے لیے شریعت کی ضرورت نہیں ہے کہ شریعت میں ان کا حکم ہو گا تو ان کا اہتمام کیا جائے گا، بلکہ ان کاموں کو کرنے کے لیے انسان کا سلیم الفطرت ہونا ضروری ہے صرف انسان کے سلیم الفطرت ہونے کی وجہ سے ہی انسان ان کاموں کو بجا لائے گا اور اپنے ان اعضا و جوارح کو صاف ستھر رکھے گا، نیز انہیں میل کچیل اور نجاست وغیرہ سے پاک صاف بھی رکھے گا۔
2-دینِ اسلام صفائی ، ستھرائی اور خوبصورتی والا دین ہے۔ اسلام کی یہ منشا ہے کہ مسلمان کی لوگوں کے درمیان اچھی خوشبو ہو، مسلمان اپنے جسم کو صاف ستھرا رکھیں، اپنے بالوں کو کنگھی کریں، اور اجلا لباس زیب تن کریں کہ مسلمانوں سے خوشبو پھیلے۔ اب جس شخص کی یہ حالت ہو گی یقینی طور پر لوگ اسے پسند کریں گے، جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس عظیم دین کی دعوت لوگوں کے ہاں قبولیت کا درجہ پائے گی۔ پھر لوگوں کے دل جس طرح اس شخص کی طرف مائل ہوتے ہیں جس کا لباس اور جسم پاک صاف ہوں، اسی طرح ایسے شخص سے متنفر بھی ہوتے ہیں جس کا جسم اور لباس میلا اور گندا ہو، تو ایسے شخص کا اسلام سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے!
3-جدید محکم سائنسی تحقیقات میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ صفائی ستھرائی اور طہارت و پاکیزگی انسان کو بہت سی بیماریوں سے بچاتی ہے، جبکہ گندگی کی وجہ سے بہت سی بیماریاں انسانوں کو لگتی ہیں۔ تو ایسا کیوں نہیں ہو گا کہ اس عظیم دین کے شرعی احکامات میں بیماریوں سے تحفظ بھی موجود ہو، اور اس دین کے احکامات پر عمل کرنے سے بیماریاں پیدا بھی نہ ہوں اور پھر ان کا پھیلاؤ بھی نہ ہو!؟
4-مسلمان اپنے رب سے ایک دن میں کئی بار راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے۔ اور اگر کوئی ملکی صدر، بادشاہ یا کسی بھی بڑے آدمی کے سامنے جائے تو بڑا ہی بن سنور کر اور صاف ستھرا ہو کر جاتا ہے، اور سب کے مشاہدے میں یہ بات ہے کہ وہ شخص اپنے جسم اور لباس کا بہت خیال کرتا ہے کہ جسم سے بد بو نہ آئے۔ اب اسلام میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ کسی بڑے عہدے دار انسان سے ملنے کے لیے ان چیزوں کا خیال نہ کیا جائے، بلکہ ہمارے پیارے پیغمبر سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہی طریقہ کار تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وفود کے آنے پر خوبصورت لباس زیب تن فرماتے تھے۔ اسی سوچ اور فکر کو مزید پروان چڑھائیں تو وہ یہ ہے کہ: وہ سب سے بڑی ذات جس کے سامنے کھڑے ہونے سے پہلے ہم تیاری کریں کہ جس سے ہم کلام ہونے سے پہلے ہم اپنے جسم اور لباس کے پاک صاف ہونے کا خیال رکھیں : وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔ اسی لیے جب ہم اللہ تعالی کے سامنے کھڑے ہونے سے پہلے طہارت کا خیال رکھتے ہیں تو یہ ہمارے لیے اچنبھے کی بات نہیں ہوتی۔ اور دوسری طرف لوگ بھی اسی طرح کا یا اس سے بڑھ کر ان چیزوں کا خیال تب کرتے ہیں جب انہوں نے کسی اپنے جیسے انسان اور مخلوق سے ملنا ہوتا ہے! تو ایسے میں اللہ تعالی کے سامنے انسان کی حالت و کیفیت کیسی ہونی چاہیے! اللہ تعالی کا حق لوگوں سے زیادہ بنتا ہے کہ اس کے سامنے آنے سے پہلے انسان اچھا لباس زیب تن کرے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی بات منقول ہے۔ [دیکھیں: صحیح ابن خزیمہ: 766]
5-کوئی شرعی احکامات پر غور و فکر کرے اور اللہ تعالی نے قوت فہم بھی عطا کی ہوئی ہو تو اسے اسلام میں طہارت کے طریقوں کے درمیان تفریق بھی معلوم ہو جائے گی کہ اگر کوئی جنبی ہو جاتا ہے تو اسے اسلام میں غسل کرنے کا حکم دیا گیا ہے پیشاب کرنے پر غسل کا حکم نہیں دیا گیا، نیز اسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ غسل اور وضو میں بھی فرق ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ و سلم نے منی کے خارج ہونے پر غسل واجب قرار دیا ہے، پیشاب کرنے پر نہیں، تو یہ اس شریعت کی بہت بڑی خوبی ہے، اس شرعی حکم میں امت پر رحمت، حکمت، اور مصلحت تینوں چیزیں موجود ہیں؛ اس لیے کہ منی کا اخراج پورے جسم سے ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے منی کو “سلالہ” یعنی نچوڑ اور سَت قرار دیا ہے، اس لیے کہ یہ پورے جسم سے نکلتا ہے، جبکہ پیشاب تو کھانے پینے کا فضلہ ہوتا ہے جو معدے سے تحلیل ہو کر مثانے میں جمع ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ منی کے نکلنے سے جسم پر اثرات پیشاب کے خارج ہونے سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
اسی طرح: منی خارج ہونے پر غسل کرنا جسم ، دل، اور روح کے لیے نہایت مفید ہے، پھر غسل صرف ایک کے لیے نہیں بلکہ تمام روحانی امور کے لیے مفید ہے کہ غسل کرنے سے ان میں قوت آتی ہے، اور جسم کو منی کے خارج ہونے کی وجہ سے جن کمزوریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے غسل اسے پورا کر دیتا ہے، یہ چیز غسل کرنے سے محسوس بھی کی جا سکتی ہے۔
ایسے ہی : جنابت کی وجہ سے طبیعت میں بوجھ اور سستی سی پیدا ہو جاتی ہے، جبکہ غسل کرنے سے جسم میں چستی اور ہلکا پن محسوس ہوتا ہے، اسی لیے ابو ذر رضی اللہ عنہ نے جنابت کے بعد غسل کرنے پر فرمایا: “ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسم سے بہت بڑا بوجھ اتار دیا گیا ہے۔”
مختصراً یہ ہے کہ: یہ ایسی بات ہے کہ جس کا ہر ایسے انسان کو ادراک ہے جس کے احساسات فطری ہیں اور وہ سلیم الفطرت ہے، یہاں یہ بات بھی جان لی جائے کہ : جنابت سے غسل ان مفید سرگرمیوں میں شامل ہے جو جسم اور دل دونوں کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ پھر جنابت کی وجہ سے قلب اور روح دونوں کی روحانیت سے دوری پیدا ہو جاتی ہے، تو جیسے ہی انسان غسل کر لے تو یہ دوری ختم ہو جاتی ہے، اسی لیے متعدد صحابہ کرام سے آتا ہے کہ: “جب انسان سو جائے تو اس کی روح آسمانوں کی طرف چڑھتی ہے، تو اگر روح پاک صاف ہو تو اسے سجدہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، اور اگر جنبی ہو تو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔” یہی وجہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جنبی شخص کو سونے سے پہلے وضو کرنے کا حکم دیا ہے، دوسری جانب فاضل طبی ماہرین نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ جماع کرنے کے بعد غسل کرنے سے جسمانی قوت واپس آ جاتی ہے، اور انسان کے جسم سے خارج ہونے والی قوت واپس لوٹ آتی ہے، چنانچہ جماع کے بعد غسل جسم اور روح دونوں کے لیے نہایت مفید ہے، جبکہ غسل نہ کرنے سے نقصان ہوتا ہے، جنابت کے بعد غسل کرنے کے فوائد پر عقل اور فطرت دونوں شاہد ہیں اور ان دونوں کی شہادت اس کی خوبصورتی کے لیے کافی ہیں۔ اللہ تعالی مزید غور و فکر کی توفیق دے۔
دوسری جانب اگر صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے پیشاب کرنے پر بھی غسل کرنا لازم ہوتا تو اس میں امت کے لیے بہت زیادہ مشقت اور حرج تھا۔ ویسے بھی اللہ تعالی کی اپنی مخلوق پر رحمت، احسان اور حکمت سبھی خوبیاں ایسی مشقت اور حرج کے لیے مانع ہیں۔
دیکھیں: ” اعلام الموقعین ” ( 2 / 77 ، 78 )، اسی طرح طاہر ابن عاشور کی کتاب: ” التحرير والتنوير ” ( 5 / 65 ) کا مطالعہ بھی کریں۔
6- اسلام میں انسان کی ظاہری اور باطنی دونوں حالتوں کا باہمی گہرا تعلق ہے، لہذا اگر کوئی شخص اپنے جسم اور کپڑوں کو گندگی اور نجاست سے پاک صاف رکھنے کی کوشش کرتا ہے، تو ایسے شخص کو اپنی روح اور باطن کو بھی برے اخلاق سے پاک رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جسم اور کپڑوں کو صاف ستھرا رکھنا اندرونی اور روحانی طور پر پاک صاف ہونے کی علامت ہے، اسلام میں ایسا نہیں ہے کہ صرف ظاہری ٹیپ ٹاپ کا خیال رکھا جائے اور باطن و روح کی طرف توجہ نہ دی جائے بلکہ دونوں ہی اسلام میں مطلوب ہیں۔ اگرچہ اگر انسان کے پاس ظاہری ٹیپ ٹاپ کے اسباب نہ ہو توں اسلام ایسے شخص کو معذور سمجھتا ہے، لیکن اپنے باطن اور روح کو پاک صاف نہ رکھنے پر کسی شخص کا عذر قبول نہیں کرتا۔ دونوں طہارتیں انسان کے لیے اللہ تعالی کی محبت کا باعث ہیں؛ فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّ الله يُحِبُّ التوابين وَيُحِبُّ المتطهرين ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔[البقرۃ: 222]
7-ہم گفتگو کے آخر میں امام ابن قیم رحمہ اللہ کی گفتگو ذکر کرتے ہیں، آپ کہتے ہیں:
“آپ شرعی احکامات پر ذرا غور و فکر کریں کہ ان احکامات کی تعمیل کے ذرائع اور ان کے نتائج دیکھیں کہ سب کے سب ہی با ہدف حکمتوں سے بھرے ہوئے ہیں، ان سب کے مقاصد اتنے اچھے ہیں کہ اگر یہ اچھے مقاصد نہ ہوتے تھے لوگ جانوروں جیسے ہوتے بلکہ ان سے بھی ابتر حالت میں ہوتے، آپ اندازہ کریں کہ طہارت اور صفائی ستھرائی میں کتنی حکمتیں پنہاں ہیں کہ ان میں قلب و جسم کے لیے کتنے فوائد ہیں، ان کی بدولت قلبی تسکین ملتی ہے اور اعضا چست و توانا رہتے ہیں، صفائی ستھرائی کی وجہ سے طبیعت میں پیدا ہو جانے والے بوجھل پن کا خاتمہ ہو جاتا ہے، جسم میں پیدا ہونے والی میل کچیل سے خلاصی حاصل ہوتی ہے، قلب ، روح اور بدن سب ہی صفائی ستھرائی سے ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں، جبکہ غسل جنابت میں مزید ترو تازگی ملتی ہے، اور جنابت کی وجہ سے جسم میں جو کمی پیدا ہوئی غسل کرنے سے وہ کمی پوری ہو جاتی ہے، جو کہ جسم کے لیے نہایت مفید ہے۔
آپ غور کریں کہ وضو کرتے ہوئے انسان اپنے ان تمام اعضا کو دھوتا ہے جن سے انسان کام کاج کرتا ہے، پھر وضو میں چہرہ بھی دھوتا ہے جس میں انسان کی سماعت، بصارت، بولنے، سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت ہے، اور یہی صلاحیتیں ہی گناہوں کے دروازوں کا کام کرتی ہیں کہ یہیں سے انسان میں گناہ داخل ہوتا ہے، پھر وضو میں ہاتھ بھی دھونے پڑتے ہیں اور یہی دونوں ہاتھ انسان کے لیے پکڑنے، لینے اور دینے کا کام کرتے ہیں، وضو میں پاؤں بھی دھوئے جاتے ہیں کہ جن کے ذریعے انسان چلتا ہے اور دوڑ دھوپ کرتا ہے۔
اور دوران وضو سر کو دھونے کا حکم اس لیے نہیں دیا کہ ہر بار سر دھونے سے مشقت ہوتی تو اس لیے سر کا مسح شامل کر دیا، اور ان سب اعضا کو دھونے کا ایک فائدہ یہ بتلایا کہ انسان کی جلد اور بال دونوں سے ہی وضو کا پانی گناہوں کو نکال دیتا ہے، اور وضو کے پانی کے قطرے گناہوں کو لے کر نیچے گر جاتے ہیں، جیسے کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث میں ثابت ہے، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب ایک مسلم یا مومن بندہ وضو کرتا ہے اور اپنا چہرہ دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ سارے گناہ خارج ہو جاتے ہیں جنہیں اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کیا تھا ، اور جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ سارے گناہ خارج ہو جاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں نے پکڑ کر کیے تھے ، اور جب وہ اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ خارج ہو جاتے ہیں جو اس کے پیروں نے چل کر کیے تھے ، یہاں تک کہ مسلم یا مومن گناہوں سے پاک ہو کر نکلتا ہے ۔) اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
صحیح مسلم میں ہی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے تو اس کے گناہ اس کے جسم سے نکل جاتے ہیں ، حتی کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ خارج ہو جاتے ہیں۔) اس حدیث میں مذکور تمام فوائد اور حکمتیں صرف وضو کی وجہ سے ہیں۔
جبکہ حکمتوں کے منکرین کہتے ہیں کہ: وضو محض مشقت، تکلف، اور محنت کے سوا کچھ نہیں، اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اور نہ ہی وضو کو شریعت میں شامل کرنے کی کوئی حکمت ہے!
اگر وضو کو شریعت میں شامل کرنے کی صرف یہی ایک حکمت ہو کہ وضو اس امت کی امتیازی علامت ہے، قیامت کے دن اسی وضو کی وجہ سے اس امت کے افراد کے چہرے اور اعضا چمکتے دمکتے ہوں گے، ایسا امت محمدیہ کے علاوہ کسی بھی امت کے لیے نہیں ہو گا۔ تو یہی حکمت وضو کے لیے کافی ہے۔
اگر وضو کو شریعت میں شامل کرنے کی صرف یہی حکمت اور مصلحت ہو کہ وضو کرنے سے انسان کے ہاتھ اور اعضا پاک صاف ہو جاتے ہیں، دل بھی توبہ کر کے اللہ تعالی کے سامنے کھڑے ہو کر مناجات کرنے کے لیے اس طرح تیار ہو جاتا ہے کہ انسان کا جسم، لباس اور دل سب پاک صاف ہوں تو اس سے بڑھ کر اور حکمت، رحمت، اور مصلحت کیا ہو سکتی ہے؟!
اور غسل جنابت کے حوالے سے دیکھیں کہ اگر شہوت انسان کے پورے جسم میں ہوتی ہے حتی کہ ہر بال کے نیچے بھی شہوت ہے: تو جنابت بھی وہاں تک پہنچتی ہے جہاں تک شہوت کو رسائی حاصل ہوتی ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (ہر بال کے نیچے شہوت ہے) [اس حدیث کو اصحاب سنن نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے۔] تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل جنابت کرنے والے کو حکم دیا کہ ہر بال کی جڑ تک پانی پہنچائے، اور شہوت کی حرارت کو ٹھنڈا کرے، اس طرح انسان نفسیاتی طور پر پرسکون ہو جائے گا، اور ذکرِ الہی، تلاوتِ قرآن اور اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہونے کے لیے تیار ہو گا۔” ختم شد
” شفاء العليل ” ( ص 229 ، 230 )
بہ ہر حال:
شرعی احکامات پر غور و فکر کرنے والے شخص کے لیے ان احکامات کی حکمتیں بالکل واضح ہو جائیں گی۔ لیکن اگر اللہ تعالی نے کسی کی بصیرت کو مسخ کر دیا ہے تو اسے کسی بھی چیز کے دیکھنے ، سننے اور جاننے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ طہارت اور صفائی ستھرائی حسن اخلاق میں شامل ہے، اسلام سے پہلے کے الہامی مذاہب میں بھی اس کا تصور موجود ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالی کی طرف سے کسی رسول کو کسی امت کی جانب ارسال کیا جائے اور وہ سب سے پہلے دعوت دین کے بعد قلبی پاکیزگی کا حکم نہ دے، تمام انبیائے کرام نے دلوں کو بتوں کی محبت سے پاک کرنے کی دعوت دی، پھر لوگوں کو اچھے اقوال و افعال اور اخلاق اپنانے کا حکم دیا، تمام نبیوں نے لباس اور جسم کو پاک صاف رکھنے کی تلقین کی ہے، تمام الہامی مذاہب میں غسل، طہارت، گندگی اور نجاست سے صفائی کا حکم دیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی اس حقیقت کے خلاف بات چیت کرتا ہے تو وہ فضول ہے۔
واللہ اعلم