اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اگر عقد نكاح كے وقت خاوند اور بيوى نماز ادا نہ كرتے ہوں تو كيا عقد نكاح كى تجديد ہو گى ؟

118752

تاریخ اشاعت : 02-12-2009

مشاہدات : 9444

سوال

جب عقد نكاح كرنے والا اور اسى طرح خاوند اور بيوى اور بيوى كا والد اور دونوں گواہ بھى نماز ادا نہ كرتے ہوں اور نكاح پڑھنے والا شخص نكاح بھى صحيح طريقہ سے نہيں پڑھا سكتا اور بلكہ عربى زبان كے علاوہ دوسرى زبان ميں نكاح پڑھايا اور اس ميں كلمہ بھى نہيں پڑھايا تو اس عقد نكاح كا حكم كيا ہے آيا يہ شادى مشروع شمار ہو گى يا نہيں ؟
اور جب وہ دونوں ترك نماز سے توبہ كر كے نماز كى پابندى كرنے لگيں تو كيا نكاح كى تجديد ہو گى يا كہ پرانا نكاح ہى مشروع شمار ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو تارك نماز فرضيت كے انكار كى وجہ سے نماز ترك كر رہا ہے تو سب علماء متفق ہيں كہ وہ كافر ہے، اور اگر وہ سستى و كاہلى كى بنا پر نماز ترك كرتا ہے تو علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق وہ كافر ہو گا.

اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 5208 ) اور ( 2182 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اور اگر عقد نكاح كے وقت خاوند اور بيوى تارك نماز تھے تو جب وہ دونوں ہى توبہ كر كے نماز پابندى كے ساتھ ادا كرنا شروع كر ديں تو وہ اپنے نكاح پر ہى باقى رہينگے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كفار كو ان كے نكاح پر باقى ركھا تھا، اور ان ميں سے كسى ايك كو بھى اسلام قبول كرنے كے بعد نكاح كى تجديد كا حكم نہيں ديا، اور اسى طرح كسى مرتد ہونے والے شخص كو بھى آپ نے تجديد نكاح كا حكم نہيں ديا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كفار كا نكاح صحيح ہے، جب وہ مسلمان ہو جائيں ت وانہيں اسى نكاح پر ركھا جائيگا.. اور ان كے نكاح كے طريقہ اور كيفيت كو نہيں ديكھا جائيگا، اور اس كے ليے مسلمانوں كے نكاح كى شروط ولى اور گواہوں كى موجودگى اور ايجاب و قبول وغيرہ كا اعتبار نہيں ہونگى، اس ميں مسلمانوں كا كوئى اختلاف نہيں.

ابن عبد البر كہتے ہيں: علماء كرام كا اجماع ہے كہ جب خاوند اور بيوى دونوں اكٹھے ايك ہى حال ميں مسلمان ہو جائيں جب ان دونوں ميں كوئى نسب اور رضاعى حرمت نہ ہو تو انہيں اس نكاح پر ركھا جائيگا.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بہت سارے مرد و عورت حضرات اسلام لائے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں ان كے نكاح پر باقى ركھا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے نكاح كى شروط اور كيفيت كے بارہ ميں دريافت نہيں فرمايا، يہ چيز تواتر اور ضرورى طور پر معلوم ہے، تو اس طرح يہ يقينى امر ہوا " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 10 / 5 ).

اور مطالب اولى النھى ميں درج ہے:

" تنبيہ:

جب مرتد شخص كسى مرتد و كافرہ وغيرہ عورت سے شادى كرے يا پھر كوئى مرتد عورت كسى كافر مرد سے شادى كرے اور پھر دونوں خاوند اور بيوى مسلمان ہو جائيں تو يہاں يہ كہنا چاہيے كہ: ہم دونوں كو حربى كى طرح نكاح پر قائم ركھيں گے جب وہ نكاح فاسد كرے اور پھر اسلام قبول كر لے كيونكہ معنى ايك ہے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور خلفاء كے دور ميں كئى ايك مرتد لوگ اسلام ميں پلٹ آئے ليكن انہيں دوبارہ نكاح كرنے كا حكم نہيں ديا گيا، اور يہ قياس ميں اچھا ہے "

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا يہى قول ہے " انتہى.

ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 5 / 13 ).

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ميں آپ كے علم ميں لانا چاہتا ہوں كہ ميں نماز كى ادائيگى نادر طور پر كبھى كبھار كرتا ہوں، اور ميں نے اس عرصہ ميں شادى بھى كى ہے، اور الحمد للہ اب ميں نمازى بن چكا ہوں، اور حج بھى كر ليا ہے اور اللہ سے اپنے پچھلے گناہوں كى توبہ كر چكا ہوں ليكن مجھے يہ علم نہيں كہ اس عقد نكاح كا حكم كيا ہے آيا يہ جائز ہے يا نہيں ؟

اور اگر جائز نہ تھا تو مجھے كيا كرنا ہو گا، يہ علم ميں رہے كہ اس بيوى سے ميرے پانچ بچے بھى ہيں ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" اگر تو عقد نكاح كے وقت آپ كى بيوى آپ كى طرح بعض اوقات نماز ادا كرتى اور بعض اوقات ادا نہيں كرتى تھى تو نكاح صحيح ہے، اور اس نكاح كى تجديد ضرورى نہيں، كيونكہ تم دونوں ہى ترك نماز كے متعلقہ حكم ميں برابر تھے اور وہ كفر ہے.

ليكن اگر عقد نكاح كے وقت عورت نماز پنجگانہ كى پابندى كرتى تھى تو علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق نكاح كى تجديد كرنا ہو گى، جب تم ميں سے ہر ايك دوسرے كى رغبت ركھتا ہو، اور اس كے ساتھ ساتھ ترك نماز سے توبہ كرنا ہو گى اور توبہ پر قائم رہنا ہو گا.

اور تجديد نكاح سے قبل جو اولاد پيدا ہوئى ہے وہ شرعى اولاد ہے، انہيں نكاح شبہ كى بنا پر اپنے باپ كى طرف منسوب كيا جائيگا.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كى اصلاح فرمائے اور ہر قسم كى خير و بھلائى كى توفيق نصب كرے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 290 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" اور اگر وہ دونوں عقد نكاح كے وقت سارى نمازيں ادا نہيں كرتے تھے، اور پھر بعد ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے انہيں ہدايت نصب فرمادى اور وہ نماز كى پابندى كرنے لگے تو ان كا نكاح صحيح ہے.

بالكل ايسے ہى جيسے اگر كوئى كافر شخص مسلمان ہو جائے تو اور نكاح كے باقى ہونے ميں كوئى شرعى مانع نہ ہو تو ان كے نكاح كى تجديد نہيں ہو گى؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فتح مكہ كے موقع پر مسلمان ہونے والے كسى بھى كافر كو تجديد نكاح كا حكم نہيں ديا تھا " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 10 / 291 ).

اس بنا پر جب خاوند اور بيوى ترك نماز سے توبہ كر ليں اور پابندى سے نماز ادا كرنے لگيں تو وہ انہيں تجديد نكاح كى ضرورت نہيں، بلكہ وہ اپنے پہلے نكاح پر ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب