الحمد للہ.
حيض سے پاكى كى دو علامتيں ہيں دونوں ميں سے ايك آ جائے تو پاكى ہو جاتى ہے:
پہلى علامت:
سفيد مادہ آنا عورتيں اسے جانتى ہيں.
دوسرى علامت:
مكمل طور پر خشك ہو جانا، وہ اس طرح كہ اگر حيض والى جگہ پر پر روئى وغيرہ ركھى جائے تو وہ بالكل صاف شفاف نكلے اور اس پر خون يا زرد رنگ كا كوئى اثر نہ ہو.
الكدرہ: يہ براؤن رنگ كا مادہ ہوتا ہے، اور الصفرۃ: اگر تو طہر ثابت ہو جانے كے بعد آئے يعنى مٹيالے رنگ كا پانى آئے تو يہ حيض شمار نہيں ہوگا، اور طہر سے قبل آئے تو يہ حيض كا حصہ ہے؛ كيونكہ ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے:
" ہم طہر كے بعد براؤن اور مٹيالے رنگ كے مادہ كو كچھ شمار نہيں كرتى تھيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 307 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس بنا پر اگر عورت كو ان دو علامتوں ميں سے كسى ايك كے آنے سے طہر آ جائے اور پھر خاوند اسے طلاق دے ـ چاہے غسل كرنے سے قبل ـ تو اس كى طلاق واقع ہو جائيگى؛ كيونكہ يہ طلاق طہر كى حالت ميں ہے.
اور اگر عورت نے ان دو علامتوں ميں سے كوئى علامت نہ ديكھى ہو اور پھر وہ طلاق كے بعد براؤن يا مٹيالے رنگ كا مادہ ديكھے تو اس كى يہ طلاق حيض كى حالت ميں طلاق ہو گى اور حيض كى حالت ميں دى گئى طلاق ميں اختلاف ہے جمہور اہل علم كے ہاں اور فقھاء اربعہ كا مسلك بھى يہى ہے كہ حيض كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع ہو جائيگى، ليكن بعض اہل علم نے اختيار كيا ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوگى.
مزيد آپ سوال نمبر ( 72417 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم