الحمد للہ.
جب خاوند " مجھ پر طلاق " كے الفاظ كہ كر خاموش ہو جائے تو اس پر كچھ لازم نہيں آتا، اور نہ ہى اس سے طلاق واقع ہوگى، كيونكہ اس نے اپنى بات ہى مكمل نہيں كى.
اہل علم كى كلام ميں يہى بات صحيح ہے.
اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ اس سے طلاق واقع ہو جائيگى.
اور بعض كہتے ہيں كہ يہ قسم ہے:
فقہ حنبلى كى كتاب " زاد المستقنع " ميں ہے:
اگر خاوند كہے: تو طلاق، يا طالق، يا مجھ پر، يا مجھ پر لازم ہے، اس كى نيت سے تين طلاق واقع ہو جائيگى، وگرنہ ايك طلاق ہوگى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ اس كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:
قولہ: " يا مجھ پر " جب كہے مجھ پر طلاق، تو يہ اپنے آپ كو اس كے التزام كرنا ہے تو يہ نذر كے مشابہ ہوگى، اگر وہ يہ كہے اور نيت كى تو اس كى بيوى كو تين طلاق ہو جائينگى، اور اگر تين كى نيت نہ ہو تو ايك طلاق ہوگى، مؤلف كا يہى قول ہے.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہل لغت اور اہل عرف كے بالاتفاق يہ قسم ہے، اور طلاق نہيں.
اور بعض كہتے ہيں اور صحيح بھى يہى ہے كہ: اگر متعلق كو ذكر نہ كرے تو يہ كچھ بھى نہيں؛ كيونكہ اس كا قول: مجھ پر طلاق " يہ اپنے نفس كو لازم كرنا ہے، اور اگر يہ التزام كى خبر ہو تو واقع نہيں ہوگى، اور اگر التزام ہو تو بھى اس كے سبب كے بغير واقع نہيں ہوگى، مثلا اگر كہے: مجھ پر لازم ہے كہ ميں يہ گھر فروخت كروں تو اس سے بيع منعقد نہيں ہوگى يعنى سودا نہيں ہو جائيگا.
اور اگر وہ يہ كہے: مجھ پر طلاق لازم ہے، تو ہم كہيں گے جب آپ نے اپنے آپ پر طلاق كو واجب كيا ہے تو طلاق دو، اور جب تم طلاق نہيں دو گے تو طلاق واقع نہيں ہوگى، اور يہى قول صحيح ہے كہ يہ طلاق نہيں، اور نہ ہى قسم ہے، مگر اس وقت جب كہ وہ چيز نہ ذكر كى جائے جس پر قسم اٹھائى گئى ہو، مثلا وہ كہے: اگر ميں ايسا كروں تو مجھ پر طلاق.
ليكن اگر عرف ميں لوگوں كے ہاں يہ معروف ہو چكا ہو كہ اگر كوئى شخص كہے: مجھ پر طلاق" تو يہ اس كے اس قول كى طرح ہى ہے كہ: تجھے طلاق " تو اس صورت ميں ہم عام قاعدہ كى طرف رجوع كرينگے.
لوگوں كى كلام كو اس پر ہى محمول كيا جائيگا جسے لوگ جانتے اور پہچانتے ہيں اور ان كى عرفى لغت ميں وہ معروف ہے، اس بنا پر يہ طلاق ہوگى، ليكن لغوى معنى كو ديكھتے ہوئے يہ طلاق نہيں، مثلا اگر كوئى شخص يہ كہے:
مجھ پر يہ گھر فروخت كرنا لازم ہے، يا مجھ پر يہ گھر وقف كرنا لازم ہے، يا مجھ پر يہ گھر كرايہ پر دينا لازم ہے، اور اس طرح كے الفاظ كہے تو يہ منعقد نہيں ہوگى.
اور اگر وہ كہے: مجھ پر اس گھر كى بيع فسخ كرنا لازم ہے تو اس سے سودا اور بيع فسخ نہيں ہوگا.
تو پھر اس طرح كى عبارت سے نہ تو عقد ہوگا اور نہ ہى فسخ، بلكہ اگر يہ خبر ہے تو اسے كچھ شمار نہيں كيا جائيگا، اور اگر يہ التزام ہے تو ہم كہينگے: اس كا سبب لاؤ حتى كہ مسبب بھى پايا جائے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 92 ).
واللہ اعلم .