الحمد للہ.
اول:
يہ ايك قبيح اور گندى عادت اور شنيع و برا فعل ہے، خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ اس ميں اپنے گھر والوں كى موافقت كرے، اس ليے اسے نہ تو اس پر فعلا راضى ہونا چاہيے اور نہ ہى قولا راضى ہو، اس كے كئى ايك اسباب ہيں جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
1 ـ يہ زوجيت كے اسرار و راز ميں شامل ہوتا ہے جس كے بارہ ميں اسے حفاظت كا حكم ديا گيا ہے، كيونكہ خاوند اور بيوى كے مابين جو مخصوص تعلاقات ہوتے ہيں انہيں لوگوں ميں نشر كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے اثرات پر كسى كو مطلع نہيں ہونا چاہيے.
2 ـ نكلنے والا يہ خون اس بات كى علامت نہيں كہ عورت شريف و عفيف ہے يا پھر برى ـ جيسا كہ معلوم ہے ـ اس كے نتيجہ ميں اس علامت نے اپنى موجودگى كا سبب بھى مفقود كر ديا.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 40278 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
3 ـ بالفرض اگر خاوند اپنى بيوى كو باكرہ نہيں پاتا تو بھى اسے اپنى بيوى كى سترپوشى يعنى اس پر پردہ ڈالنے كا حكم ديا گيا ہے، نہ كہ وہ اسے لوگوں ميں ذليل و رسوا كرتا پھرے اور خاوند كے گھر والے جس چيز كا اس سے مطالبہ كر رہے ہيں اس ميں ذلت و رسوائى ميں معاونت ہے جو كہ حرام ہے اس سے واجب كردہ سترپوشى ميں معاونت نہيں ہوتى.
4 ـ اس قبيح اور گندى عادت كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ: خاوند اور بيوى دونوں كو پريشانى حاصل ہوتى ہے؛ تا كہ خاوند پردہ بكارت كو ختم كرنے ميں جلدى كرے، حالانكہ پہلى رات بيوى اس كے ليے تيار نہيں بھى ہو سكتى، اور بعض اوقات بہت زيادہ خون جارى ہونے كا سبب بھى بن سكتى ہے اور اسى طرح ازدواجى تعلقات ميں بھى بغض پيدا ہو سكتا ہے.
5 ـ اس قبيح اور گندى عادت ميں عورت پر فحاشى كے فعل كى تہمت پائى جاتى ہے، اور وہ اس خون كو ديكھ كر اس كى براءت كى دليل حاصل كرنا چاہتے ہيں.
6 ـ اس قبيح اور گندى عادت كے بارہ ميں كم از كم يہ كہا جا سكتا ہے كہ يہ شرم و حياء كے منافى ہے، كيونكہ خاوند اور بيوى كے مابين جو ازدواجى تعلقات قائم ہوتے ہيں انہيں چھپانے كا حكم ديا گيا ہے، اس ليے انہيں ظاہر كرنے اور ا سكا اعلان كرنا جائز نہيں.
اس ليے اس گندى اور قبيح عادت سے اجتناب كرنا اور اس كے خلاف اعلان جنگ كرنا واجب و ضرورى ہے.
شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" واضح اور فاش غلطى ہے كہ دلہن كے خون بكارت سے لتھڑى ہوئى دلہن كى قميص ديہات ميں گھمائى جائے، بلكہ بكارت كے خون كى بجائے اسے اس بارك سے عضو پر زيادتى كا خون كہنا زيادہ صحيح ہوگا، كيونكہ يہ وحشى شخص ضرورت كے وقت بھى اس مسكين عورت كے متعلق اللہ كا ڈر نہيں ركھتا كہ اللہ اس كى نگرانى كر رہا ہے.
اور پھر يہيں پر بس نہيں بلكہ دلہن كى قميص گھماتے ہوئے اور پردہ بكارت زائل كرتے ہوئے ايسى كلام كرتے ہيں جس سے انسانيت بھى شرما جاتى ہے، مالدار اور درميانہ درجہ كے افراد كے ہاں تو يہ بدعت ختم ہو چكى ہے، ليكن فقراء و غريب لوگوں ميں ابھى تك اسے مقدس سمجھ جاتا ہے اور يہ باقى ہے، اور اسى طرح گرے ہوئے طبقہ كے ہاں بھى پائى جاتى ہے جو كہ جاہليت كى باقيات ميں سے ہے " انتہى
ديكھيں: الابداع فى مضار الابتداع ( 265 ) طبع دار الاعتصام.
واللہ اعلم .