جمعہ 12 جمادی ثانیہ 1446 - 13 دسمبر 2024
اردو

جھاد میں قوت کے لیےروزہ افطار کرنا

سوال

کیا مجاھدین کےلیے رمضان المبارک کے ليے روزے چھوڑنا جائز ہے حالانکہ وہ اپنے ملک میں بستے ہيں اورمسافربھی نہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جی ہاں جھاد میں طاقت حاصل کرنے کےلیے مجاھدین کےلیے روزے ترک کرنا جائز ہے ، اگرچہ وہ اپنے ملک میں ہی ہوں کیونکہ روزہ انہیں لڑائی میں کمزور اوردشمن کوگزند پہنچانے میں بھی کمزور ہوجائيں گے ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی کے اقوال میں سے ایک قول یہی ہے اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ اوران کے دونوں شاگرد ابن مفلح اورابن قیم رحمہم اللہ تعالی اوردوسرے اہل علم نے بھی اختیار کیا ہے ۔

دیکھیں کتاب : الفروع لابن مفلح ( 3 / 28 ) ۔

جھاد کے سبب روزہ ترک کرنے کی مشروعیت پر احادیث بھی وارد ہيں جن میں مندرجہ ذيل حدیث بھی شامل ہے :

ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ہم نے فتح مکہ کے سال مکہ کی جانب سفر کیا تو ہم میں نے روزے سے تھے ، ہم نے راستے میں ایک جگہ پر پڑاؤ کیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

تم دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو اور روزہ نہ افطار کرنا تمہارے لیے زيادہ طاقت کا باعث ہوگا ۔

توہمارے لیے یہ رخصت تھی لھذا ہم میں سے کچھ نے روزہ رکھا اورکچھ نے روزہ چھوڑدیا ، پھر ہم نے ایک اور جگہ پر پڑاؤ کیا تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تم صبح اپنے دشمن سے مقابلہ کروگے اورروزہ چھوڑنا تمہارے لیے زيادہ طاقت کا باعث ہوگا لھذا روزہ چھوڑدو ، تویہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے عزیمت تھی لھذا ہم نے روزہ چھوڑدیا ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1120 ) ۔

اورابوداود رحمہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ انہوں نے لوگوں کوفتح مکہ کے سال سفر میں روزہ چھوڑنے کا حکم دیا اوریہ فرمایا :

دشمن کے مقابلہ میں طاقت حاصل کرو ۔

سنن ابوداودد حدیث نمبر ( 2365 ) ۔

حافظ رحمہ اللہ تعالی التلخیص الحبیر میں کہا ہے کہ اسے امام حاکم اورابن عبدالبر نے صحیح کہا ہے ا ھـ

تویہ دونوں حدیثیں لوگوں کے لیے روزہ چھوڑنے پر دلالت کرتی ہیں جو کہ سفر کی وجہ سےنہيں بلکہ جھاد میں دشمن کے مقابلہ میں قوت حاصل کرنے لیے ہے ۔

موطا کی شرح المنتقی میں اس کی شرح کرتے ہوئے کہا گيا ہے :

قولہ ( دشمن کے مقابلہ کےلیے طاقت حاصل کرو ) ان کے روزہ چھوڑنے کا یہ ہی سبب تھا ۔۔۔ اوراگر اس میں سفر کی علت ہوتی تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے مقابلہ کے لیے طاقت حاصل کرنے کی علت بیان نہ کرتے ۔ اھـ ۔

اورمناوی رحمہ اللہ تعالی نے فیض القدیرمیں کچھ اس طرح کہا ہے :

( مصبحو ) یعنی تم صبح ان سے مقابلہ کرنے والے ہو ۔

اورایک روایت میں ہے ( تم دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو )

روزہ افطار کرنے کی علت یہ ہے کہ وہ دشمن کے قریب اوراس سے مقابلہ کرنے کی قوت حاصل کرنا یہاں پر روزہ بھی جھاد کے لیے چھوڑا نہ کہ سفر کی بنا پر ، لھذا اگر انہیں حضر میں بھی دشمن سے مقابلہ کرنا ہواورروزہ افطار کرکے ان کے مقابلہ کے لیے طاقت حاصل کرنا چاہیں تو جائز ہوگا ، کیونکہ صرف سفرکی بنا پر روزہ چھوڑنے اولی اورافضل ہے ۔ اھـ

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے زاد المعاد میں کہا ہے :

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دشمن کےقریب پہنچنے پر حکم دیتے کہ وہ روزہ چھوڑ دیں تا کہ دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے طاقت حاصل کرسکیں ، اوراگر اس طرح کا کوئي واقعہ حضرمیں بھی موافق ہوتا اورروزہ ترک کرنے میں دشمن کے مقابلہ میں قوت حاصل ہوتی توکیا اس میں بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے ؟

اس میں علماء کرام کے دو قول ہیں :

دلیل کےاعتبار سے زيادہ صحیح یہی ہے کہ انہيں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے ، اورجب مسلمان لشکر کا دمشق کے باہر دشمن سےمقابلہ ہوا توشیخ الاسلام نے یہی فتوی جاری کیا تھا ، اورپھر اس لیے بھی کہ جھاد کی مشقت سفرمیں آنے والی مشقت سے بھی زيادہ قوی ہوتی ہے ۔

اورپھر روزہ نہ رکھنے میں مجاھد کے لیے حاصل ہونے والی مصلحت سفر کی مصلحت سے بھی زيادہ عظيم ہے ، اوراسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورتم دشمن کے مقابلہ کے لیے جتنی استطاعت ہو تیاری کرکے رکھو الانفال ( 60 ) ۔

اوردشمن سے مقابلہ کے وقت روزہ افطار کرنا قوت کے اسباب میں سب سے بڑا سبب ہے ۔۔۔۔ اوراس لیے بھی کہ جب صحابہ کرام دشمن کے قریب پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا :

( یقینا تم دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو اورروزہ افطار کرنا تمہاری طاقت میں اضافہ کا با‏عث ہے ، اوراس وقت یہ رخصت تھی ، پھر وہ ایک اورجگہ پر پڑاؤ کرتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بلاشبہ تم صبح دشمن سے مقابلہ کرنے والے ہو لھذا روزہ نہ رکھنا تمارے لیے زيادہ طاقت کا با‏عث ہوگا اس لیے روزہ نہ رکھو تونبی صلی اللہ علیہ سلم کی جانب سے یہ عزیمت تھی لھذا ہم نے روزہ چھوڑ دیا ) ۔

لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے قریب ہونے اورانہیں قوت وطاقت کے محتاج ہونے کی علت بیان کی کہ وہ دشمن سے مقابلہ کرنے والے ہیں اس لیے روزہ نہ رکھیں ، لھذا یہ سفر کے علاوہ ایک اورسبب تھا ، اورسفر تو مستقل طور بنفسہ ایک سبب ہے جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیل بیان کرتے ہوئے ذکر نہيں کیا اور نہ ہی اشارہ کیا ہے ۔۔۔۔

بالجملہ یہ ہے کہ شارع علیہ کی تنبیہ اورحکمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جھاد کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا صرف سفرکی وجہ سے روزہ چھوڑنے سے اولی اورافضل ہے ، یہ کیسے نہ ہو حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علت کی طرف اشارہ بھی کیا اوراس پر متنبہ بھی کرتے ہوئے اس کے حکم کی صراحت بھی کردی اورانہیں عزم کے ساتھ جھاد کی وجہ سے روزہ افطار کرنے کہا ۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ عیسی بن یونس شعبہ سے اوروہ عمرو بن دینار سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے سنا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن صحابہ کرام سے فرمایا :

آج لڑائي کا دن ہے اس لیے روزہ افطار کرلو ۔

یہاں پر روزہ نہ رکھنے کی علت لڑائي اورجھاد بیان فرمائی اوراس پر افطار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فاء کا استعمال کیا اورفرمایا فافططروا ، یعنی لھذا افطار کرو ، اوراس لفظ کے بولنے ہر ایک یہ سمجھ سکتا ہے کہ روزہ نہ رکھنا لڑائي اوردشمن کےمقابلہ کی وجہ سے تھا ۔ ا ھـ

دیکھیں زاد المعاد ( 2 / 53 - 54 ) ۔

واللہ تعالی اعلم ۔

اورجس معرکے کا ذکر ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے وہ معرکہ مسلمانوں اورتتاریوں کے مابین سن 702 ھجری میں ہواتھا ، جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئي تھی ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

اور ( ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے ) لوگوں کو لڑائي کی مدت میں روزہ نہ رکھنے کا فتوی دیا اورخود بھی روزہ نہ رکھا ، اوروہ خود فوجیوں اور امراء کے پاس جاتے اوروہاں اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئي چيز میں سے کھاتے رہے تا کہ انہيں یہ علم ہوجائےتا کہ لڑائي کے لیے طاقت حاصل کرنے کےلیے ان کا روزہ نہ رکھنا افضل اوراولی ہے ، اورلوگ بھی کھانے لگے ۔ ا ھـ

دیکھیں کتاب : البدايۃ والنھايۃ ( 14 / 31 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب