الحمد للہ.
اول:
طلاق اس طہر ميں دينا مشروع ہے جس ميں بيوى سے جماع نہ كيا گيا ہو، يعنى بيوى كو حيض اور نفاس سے طاہر ہونے كى حالت ميں طلاق دى جائے اور اس طہر ميں جماع بھى نہ كيا گيا ہو.
ليكن حيض يا نفاس كى حالت ميں يا پھر جس طہر ميں جماع كيا گيا ہو اس طہر ميں طلاق دينے كے مسئلہ ميں فقھاء كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے، جمہور فقھاء كرام تو ان حالات ميں دى گئى طلاق كے واقع ہونے كے قائل ہيں.
ليكن بعض فقھاء كہتے ہيں يہ طلاق واقع نہيں ہوگى كيونكہ يہ طلاق بدعى اور حرام ہے، اور اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب اپنى عورتوں كو طلاق دو تو انہيں ان كى عدت كے ( دنوں كے ) آغاز ميں طلاق دو الطلاق ( 1 ).
آيت كا معنى يہ ہے كہ: وہ جماع كے بغير پاك ہوں، اس قول كو شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور اہل علم كى ايك جماعت نے اختيار كيا ہے، اور ہمارى اس ويب سائٹ پر بھى يہى قول معتمد ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 106328 ) اور ( 72417 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
جب آپ نے كسى ايسے عالم دين سےجس پر آپ كو اعتماد ہے اور اسے ثقہ سمجھتے ہيں سے فتوى ليا اور اس نے آپ كو تيسرى طلاق واقع نہ ہونے كا فتوى ديا كيونكہ وہ ايسے طہر ميں ہوئى جس ميں جماع كيا گيا تھا تو اس فتوى پر عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں اور آپ اپنے خاوند كے پاس جا سكتى ہيں ليكن آئيندہ طلاق كے الفاظ استعمال كرنے ميں اجتناب كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى سب كو اپنى پسند اور رضا والے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .