ہفتہ 8 جمادی اولی 1446 - 9 نومبر 2024
اردو

اُس بہن کے لیے اہم مشورے اور رہنمائی جو اپنی استانی سے اپنے والدین سے بھی زیادہ محبت کرتی ہے!

127838

تاریخ اشاعت : 20-09-2024

مشاہدات : 900

سوال

کیا ایک طالبہ کا والدین سے بھی زیادہ اپنی استانی سے محبت اور احترام کرنا والدین کی نافرمانی ہے؟ آپ اس بارے میں کیا نصیحت کریں گے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

طالبہ کا اپنی استانی کے متعلق محبت اور قدردانی کا احساس ایک اچھی بات ہے اور استانی کا احترام کرنا شریعت الہی میں ایک اعلیٰ اخلاق کا مقام رکھتا ہے، لیکن ہمیں طالبہ کی اپنی استانی سے محبت اور اس کی والدین کے ساتھ محبت میں موازنہ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین کی محبت فطری ہوتی ہے جبکہ استانی اور ٹیچر سے محبت کا سبب بعد میں رونما ہوتا ہے جس کی وجہ سے شاگرد ہ اپنی استانی سے محبت کرنے لگتی ہے۔

لیکن یہاں دو چیزوں پر گہری نظر ہونی چاہیے:

پہلی چیز: خیال رہے کہ یہ شاگردہ اور استانی کے درمیان “محبت” کہیں طلبہ کو “شیدائی” نہ بنا دے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ صحیح راستے سے ہٹ چکے ہیں، لہذا شاگرد کا اپنے استاد سے یا استاد کا اپنے شاگرد سے متاثر ہونا۔ اسی طرح شاگردہ کا اپنی استانی سے یا استانی کا اپنی شاگردہ سے متاثر ہو نا بسا اوقات نہ ختم ہونے والے مفاسد اور خرابیوں کا باعث بنتا ہے، ہم نے اس بیماری کے حوالے سے اس کی خرابیاں اور برے اثرات ، اور اس کے علاج کے لیے سوال نمبر: (104078) میں مفصل گفتگو کی ہے، لہذا اس بیماری سے بچنے کے لیے اس سوال کا مطالعہ مفید ہو گا۔

دوسری چیز: ہمیں خدشہ ہے کہ کہیں یہ شاگردہ اور استانی کے درمیان “محبت” شاگردہ کے ذہن میں استانی کے متعلق “پارسائی” اور “مقدس شخصیت” کا تصور پیدا نہ کر دے، عام طور پر نسوانی صوفی جماعتوں میں ایسے ہی ہوتا ہے، خصوصاً دمشق کی “قبیسی جماعتِ نسواں” ایسے ہی اردن کی “طباعی جماعتِ نسواں”، لبنان میں “سحری جماعتِ نسواں” اور کویت میں “بیادر السلام” وغیرہ ، یہ سب کی سب ایک ہی نظریہ رکھنے والی تنظیم کے مختلف نام ہیں، یہ نقشبندی سلسلے سے جڑی خواتین کی صوفی تنظیمیں ہیں، ان سب کا متفقہ طور پر نظریہ ہے کہ اپنی صوفی بزرگ خاتون کی تعظیم اور تقدیس میں کسی قسم کی کمی نہیں آنی چاہیے، یہ تمام تنظیمیں بچیوں اور خواتین کو اس نہج پر تربیت دیتی ہیں کہ اپنی صوفی بزرگ خاتون کو والدین، اور خاوند سے بھی زیادہ ترجیح دینی ہے، ان کی اس غلط تربیت کی وجہ سے ان تنظیموں کے ساتھ جڑی خواتین کے گھر اجڑ چکے ہیں اور اب یہ خواتین طلاق یافتہ ہیں۔

ان جماعتوں کے متعلق دائمی فتوی کمیٹی کی جانب سے بڑا ہی تفصیلی فتوی بھی جاری کیا جا چکا ہے، ہم اس میں سے کچھ حصے آپ کے سامنے رکھتے ہیں:

  • صوفی سلسلوں میں سے ایک سلسلہ نقشبندی سلسلہ ہے، یہ سارے کے سارے سلسلے کتاب و سنت سے تصادم رکھنے والے صوفی سلسلے ہیں۔
  • ان صوفی سلسلوں میں محض یہی نہیں کہ ان میں صرف بدعات ہیں، بلکہ بدعت و ضلالت کے ساتھ شرک اکبر بھی ان میں پایا جاتا ہے کہ ان میں صوفی بزرگوں کی شان میں غلو، اور انہی بزرگوں سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔
  • سوال میں ان کے مشہور شعار اور نعرے بھی درج کیے گئے ہیں کہ مثلاً: “جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہوتا ہے۔” اسی طرح یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ: “جس کے لیے مربی کا سکھایا ہوا ادب مفید نہ ہو اسے کتاب و سنت بھی فائدہ نہیں دیتے”، یہ بھی کہ: “جس نے اپنے شیخ سے کہا: کیوں؟ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔” یہ سارے کے سارے اقوال باطل ہیں؛ کتاب و سنت سے تصادم رکھتے ہیں؛ کیونکہ جس شخصیت کی بات بغیر کسی چوں چراں کے قبول کی جاتی ہے وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ہے۔
  • اس لیے ضروری ہے کہ صوفیوں سے متنبہ رہیں، ایسے ہی صوفیوں کے پرستاروں سے بھی بچیں چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین۔ اسی طرح صوفیوں کو تدریسی اور تعلیمی ذمہ داریوں سے دور رکھیں ، ان کی خواتین کی مخصوص تنظیموں وغیرہ میں شامل ہونے سے خبردار رہیں؛ مبادا لوگوں کے نظریات خراب نہ کر دیں۔ اس لیے مرد حضرات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی زیرِ ولایت بچی کو ایسی تنظیموں اور اسکولوں میں جانے سے روکیں جن کی باگ ڈور صوفیوں کے ہاتھ میں ہے، یا جہاں پر صوفی اساتذہ پائے جاتے ہیں، تا کہ ان کے عقائد صحیح رہیں، اور خاندان بھی بکھرنے سے بچے رہیں، اور میاں بیوی کی ازدواجی زندگیاں بھی خراب نہ ہوں۔
  • ہم مذکورہ خواتین کو توبہ کرنے کی نصیحت کریں گے، اور زور دیں گے کہ راہِ حق پر واپس آ جائیں، اور اس باطل تنظیم کو ترک کر دیں ،برے مولویوں سے بچیں، اہل سنت و الجماعت کے عقائد کو مضبوطی سے تھامیں، صحیح عقیدے پر مشتمل مفید کتابیں پڑھیں، صحیح منہج کے حامل کتب و سنت پر عمل پیرا علمائے کرام کے خطابات، تقریریں اور پروگرام سنیں، اسی طرح ہم ان خواتین کو نصیحت کریں گے کہ سرپرست اور ولی کی اچھے کاموں میں مکمل اطاعت کریں۔

الشیخ عبد العزیز بن باز،    الشیخ عبد الرزاق عفیفی،     الشیخ عبد العزیز آل الشیخ، الشیخ عبد اللہ غدیان، الشیخ صالح الفوزان،   الشیخ بکر ابو زید۔
” فتاوى اللجنة الدائمة ” دوسرا ایڈیشن ( 2 / 74 – 79 )

ہم سائلہ بہن کو نصیحت کریں گے کہ اپنی استانی سے محبت کرتے ہوئے بھی راہِ اعتدال اختیار کرے، نیز یہ محبت بھی شریعت پر مبنی ہونی چاہیے، لہذا استانی سے محبت استانی کے مکمل دیندار ہونے کی وجہ سے ہونی چاہیے اس میں کسی قسم کا غلو اور افراط نہیں ہونا چاہیے، چنانچہ اگر بہن کو محسوس ہو کہ وہ صحیح شرعی راستے سے ہٹ رہی ہے اور ہماری ذکر کردہ منفی چیزوں کی طرف جا رہی ہے تو پھر فوری طور پر اپنا علاج خود کرے، اور اپنی محبت کو سیدھا کرے، اور اگر سیدھا نہ کر سکے تو استانی سے تعلق ختم کر دے، تعلق ختم کرنے کی وجہ سے وہ گناہگار نہیں ہو گی، بلکہ اس تعلق کو قائم رکھنے کی وجہ سے اسے گناہ ہو گا۔

سائلہ بہن! آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آپ کے والدین کا آپ پر حق ہے، اور کیا حق ہے؟ اور تمہارے شوہر کا تم پر حق ہے، اور کیا حق ہے؟ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ تمہاری اولاد کا تم پر حق ہے، اور اسی طرح تمہاری استانی کا تم پر حق ہے، لہٰذا ہر ایک کو اس کا حق دو۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب