الحمد للہ.
ہمارے علم کے مطابق ایسی کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے، یہ بے بنیاد بات ویسے ہی لوگوں میں مشہور ہو گئی ہے۔
تاہم سوال میں مذکور بات سے ملتی جلتی گفتگو کتاب و سنت میں تو کہیں نہیں البتہ تورات کے حوالے سے نقل شدہ ملتی ہے کہ ابو نعیم "حلیۃ الاولیاء": (10/399) میں اپنی سند سے محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ:
"میں نے تورات -یا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے صحائف-میں پڑھا اور اس میں تھا کہ: "اللہ تعالی فرماتا ہے: اے ابن آدم! توں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا، میں نے تجھے پیدا کیا حالانکہ تیرا وجود بھی نہیں تھا ، اور میں نے تجھے ایک کامل انسان بنایا، میں نے تجھے مٹی کے جوہر سے پیدا کیا، پھر میں نے تجھے محفوظ جگہ پر نطفے کی حالت میں رکھا، پھر میں نے نطفے کو علقہ بنایا ، اور پھر علقہ کو مضغہ بنایا، اور پھر مضغہ میں ہڈیاں پیدا کیں، اس کے بعد ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھایا، اور تمہیں ایک الگ ہی تخلیق بنایا۔۔۔" پھر انہوں نے سوال میں مذکور چیزوں کو بھی بیان کیا ہے، اور اس میں کچھ اور چیزیں اضافی بھی ہیں۔
ہر مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کسی بھی بات کی نسبت کرنے سے پہلے تصدیق کر لے کہ کیا واقعی وہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی ہے؟ تا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کسی چیز کی جھوٹی نسبت نہ ہو سکے۔
پھر اگر کوئی شخص کسی کی بات کو آگے نقل کرنا چاہتا بھی ہے تو اس کے اصل قائل کی نسبت سے بیان کرے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی بھی بات اچھی لگے اور اس کا معنی و مفہوم ٹھیک ہو تو بغیر کسی دلیل کے اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کر دے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کر دے۔
واللہ اعلم