الحمد للہ.
اگر يہ تعلقات حرام ہوں تو عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنے خاوند كو ايسے تعلقات قائم كرنے پر راضى ہو، بلك اسے اپنے خاوند طو نصيحت كرنى چاہيے اور اسے ان حرام تعلقات سے منع كرنا چاہيے كيونكہ يہ تعلقات تو اسے فحاشى ميں لے جائيں گے، اور خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنى بيوى كو راضى كرتا پھرے كہ وہ ان حرام تعلقات پر اسے قائم رہنے دے، كيونكہ ايسا كرنا حرام ہے.
ليكن اگر خاوند كو كوئى دوسرى عورت پسند آ گئى اور اچھى لگى ہو اور وہ اس سے شادى كرنا چاہے، اور وہ عورت نيك و صالحہ اور مناسب ہو تو پھر اسے اپنى پہلى بيوى كو مطمئن كرنا چاہيے، اور وہ اسے بتائے كہ دوسرى شادى حلال اور مباح ہے، اور بيوى كو بھى اس كى بات مان كر اس شادى پر موافقت كر لينى چاہيے.
رہا مسئلہ دوسرى شادى كے معيار كا تو اس كے ليے دوسرى شادى كرنے والے كے اندر دونوں بيويوں كے حقوق پورے كرنے كى قدرت و استطاعت ہونى چاہيے، اور وہ دونوں بيوں ميں عدل و انصاف كرے، اور ان ميں سے ايك كو چھوڑ كر دوسرى كى طرف مائل نہ ہو.
جيسا كہ حديث شريف ميں آيا ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كى دو بيوياں ہوں اور وہ كسى ايك كى طرف مائل ہو تو روز قيامت ايك طرف جھكا ہوا آئيگا "
اس ليے اسے حقوق اور نان و نفقہ وغيرہ ميں عدل و انصاف كرنا ہوگا.
واللہ تعالى اعلم.