الحمد للہ.
زکاۃ کی ادائیگی کیلئے نیت کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ زکاۃ ایک
عبادت ہے، اور عبادت کیلئے عبادت کرنے والے کی نیت کا ہونا لازمی بات ہے، فرمانِ
باری تعالی ہے:
وَمَا
أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ
ترجمہ: اور انہیں صرف ہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ صرف اللہ کیلئے خالص عبادت
کریں[البينة : 5]
اسی طرح فرمایا:
وَمَا
آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ
ترجمہ: اور تم جو بھی زکاۃ دو جس سے تم رضائے الہی چاہتے ہو۔[الروم : 39]
ایسے ہی فرمایا:
فَاعْبُدِ
اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ
ترجمہ: عبادات صرف اللہ کیلئے خالص کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرو ۔[الزمر : 2]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اعمال کا دارو مدار نیت پر ہوتا ہے، اور ہر شخص کیلئے وہی ہوگا جس کی اس نے نیت کی) بخاری: (1) مسلم: (1907) چنانچہ ان تمام دلائل سے یہ معلوم ہوا کہ نیت کے بغیر زکاۃ کی ادائیگی درست نہیں ہوگی۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زکاۃ اکی ادائیگی نیت کے بغیر نہیں ہو سکتی ، اسی موقف کے مالک، ابو حنیفہ، ثوری،
احمد، ابو ثور، داود، اور دیگر جمہور علمائے کرام قائل ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اعمال کا دارو مدار نیت پر ہوتا ہے، اور ہر شخص کیلئے
وہی ہوگا جس کی اس نے نیت کی) ؛ تاہم امام اوزاعی کا موقف شاذ ہے کہ زکاۃ کی
ادائیگی کیلئے نیت کرنا ضروری نہیں ہے چنانچہ ان کے نزدیک بغیر نیت کے بھی زکاۃ ادا
ہو جائے گی، جیسے کہ دیگر قرضے ادا کرتے ہوئے نیت نہیں کی جاتی ہے" انتہی
"المجموع" (6/158)
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/264) میں کہتے ہیں:
"تمام فقہائے کرام کا موقف یہ ہے کہ زکاۃ کی ادائیگی کیلئے نیت کا پایا جانا ضروری
ہے، صرف اوزاعی سے منقول ہے کہ انہوں نے زکاۃ کی ادائیگی کیلئے نیت کو واجب قرار
نہیں دیا" انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"اگر مقروض شخص نے قرض خواہ کی طرف سے اس کی اجازت لیے بغیر ہی زکاۃ ادا کر دی تو
کیا قرض خواہ کی طرف سے یہ زکاۃ ادا ہو جائے گی؟ یا قرض خواہ کو دوبارہ زکاۃ ادا
کرنی ہوگی؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"کوئی بھی شخص کسی کی طرف سے زکاۃ ادا کر دے اور اس نے زکاۃ دینے کیلئے اِسے ذمہ
داری نہ سونپی ہو تو ایسی زکاۃ ادا نہیں ہوگی؛ کیونکہ زکاۃ کی ادائیگی کیلئے نیت کا
ہونا لازمی ہے، چنانچہ زکاۃ کی ادائیگی قرض اد اکرنے سے مماثلت نہیں رکھتی ،
کیونکہ اگر آپ کسی مقروض کی طرف سے قرض ادا کرنا چاہیں تو اس کی اجازت کے بغیر بھی
ادا کر سکتے ہیں، اور اس طرح سے اسکا قرض بھی ادا ہو جائے گا، لیکن زکاۃ ایسے ادا
نہیں ہوسکتی کہ جس پر زکاۃ واجب ہے اس کی طرف سے ذمہ داری لیے بغیر آپ اس کی زکاۃ
ادا نہیں کر سکتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ زکاۃ عبادت ہے اور عبادت کیلئے نیت کی ضرورت
ہوتی ہے، اور عبادت کی نیت وہی کریگا جس پر عبادت فرض اور لازمی ہے، چنانچہ اگر قرض
خواہ نے زکاۃ ادا کرنے کیلئے آپ کی ذمہ داری نہیں لگائی تو آپ قرض خواہ کی نیت کے
بغیر زکاۃ ادا کرینگے اور یہ بغیر نیت کے ادا ہوگی جو کہ درست نہیں ہے، اس لیے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اعمال کا دارو مدار نیت پر ہوتا ہے، اور
ہر شخص کیلئے وہی ہوگا جس کی اس نے نیت کی) " انتہی
ماخوذ از: (فتاوی نور علی الدرب)
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (9/245) میں ہے کہ:
"ہر مالک پر زکاۃ واجب ہے، بشرطیکہ حاصل شدہ پھل کی مقدار نصاب کے برابر ہو جائے،
اور اسے زکاۃ ادا کرتے ہوئے یہ نیت کرنی چاہیے کہ یہ زکاۃ ہے، کیونکہ زکاۃ نیت کے
بغیر ادا نہیں ہوتی؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اعمال کا دار
و مدار نیتوں پر ہے) اس لیے مالک کے علاوہ کوئی اور زکاۃ ادا نہیں کر سکتا، الا کہ
جس پر زکاۃ واجب ہے وہ زکاۃ ادا کرنے کی اجازت دے دے۔۔۔" انتہی
اس لیے مقروض شخص کی طرف سے آپ کی پیشگی اجازت کے بغیر زکاۃ ادا کرنا درست نہیں ہے، آپ کو اپنی زکاۃ ادا کرنا ہوگی، اور پہلے ادا شدہ رقم مقروض شخص کی طرف سے صدقہ ہوگا۔
واللہ اعلم.