الحمد للہ.
اول:
اگر آدمى اپنى بيوى كو پہلى يا دوسرى طلاق دے دے اور طلاق مال پر نہ ہو تو يہ طلاق رجعى كہلاتى ہے اس ميں خاوند كو اپنى بيوى سے عدت ميں رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، اور اس ميں نہ تو بيوى كى رضامندى شرط ہے، اور نہ ہى بيوى كے ولى كى رضامندى شرط ہوگى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور طلاق يافتہ عورتيں اپنے آپ كو تين حيض تك روكے ركھيں، انہيں حلال نہيں كہ اللہ نے ان كے رحم ميں جو پيدا كيا ہے اسے چھپائيں، اگر انہيں اللہ تعالى پر اور قيامت كے دن پر ايمان ہو، اور ان كے خاوند اس مدت ميں انہيں لوٹا لينے كے پورے حقدار ہيںن اگر ان كا ارادہ اصلاح كا ہو، اور عورتوں كے بھى ويسے ہى حق ہيں جيسے ان پر مردوں كے ہيں اچھائى كے ساتھ، ہاں مردوں كو عورتوں پر فضيلت ہے اور اللہ تعالى غالب و حكمت والا ہے البقرۃ ( 228 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 75027 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اس بنا پر سائل كو اپنى بيوى سے رجوع كا حق حاصل ہے چاہے وہ بيوى اس رجوع پر راضى نہ بھى ہو، اور اس رجوع كے ليے يہى كافى ہے كہ وہ كہے: ميں نے اپنى بيوى سے رجوع كيا چاہے وہ اس رجوع كا بيوى كو بتائے يا نہ بتائے، اور اسے چاہيے كہ اس رجوع پر وہ گواہ بنا لے تا كہ بيوى يہ دعوى نہ كر سكے كہ اس نے عدت ميں رجوع نہيں كيا.
اور جب خاوند بيوى سے رجوع كر لے تو شرعى طور پر لازم ہے كہ وہ خاوند كے پاس جائے وگرنہ وہ شرعى طور پر نافرمان ٹھرےگى، الا يہ كہ اس كا خاوند كے ساتھ رہنا ضرر شمار ہوتا ہو، تو اس صورت ميں ضرر و نقصان كو ختم كرنے كے ليے طلاق طلب كرنے كا حق حاصل ہوگا.
مقصد يہ ہے كہ عدت ختم ہونے كا كوئى خوف نہيں كيونكہ اس كے ليے بيوى كے بغير اب رجوع كرنا ممكن ہے چاہے بيوى راضى نہ بھى ہو.
ہم سائل كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ بيوى كو ٹيلى فون كر كے كہے: ميں نے تيرے ساتھ رجوع كر ليا ہے، اور اس پر وہ گواہ بھى بنا لے، تو اس طرح اس كى بيوى اس كى عصمت ميں واپس آ جائيگى، حتى كہ اللہ تعالى ان دونوں كے ليے آسانى پيدا كر دے، اور بيوى اپنے والدين كو راضى كرنے كے بعد خاوند كے پاس چلى جائے.
دوم:
بيوى كو چھوڑنا يا دوسرى شادى كرنے ميں فرق اور اسے اختيار كرنا تو اس ميں پائى جانے والى مصلحت اور خرابيوں ميں موازنہ كرنے كے بعد ہوگا، اور يہ چيز انسان كى حالت كے مطابق ہے كسى شخص كى مالى اور نفسى حالت دوسرے شخص سے مختلف ہوتى ہے اور اس ميں آنے والى مشكلات كو برداشت كرنے كى صلاحيت كسى دوسرے سے كم يا زيادہ ہوتى ہے جو كہ ايك سے زائد بيويوں كى صورت ميں مشكلات پيدا ہوتى ہيں اس ليے حالت مختلف ہونے سے حكم بھى مختلف ہوگا اور يہ بھى احتمال ہے كہ دوسرى شادى كے بعد بيٹى سے بھى جدائى ہو جائے.
كسى بھى شخص كو ايسا كوئى قدم اٹھانے سے قبل غور و فكر كر لينا چاہيے، اور ايسے شخص سے مشورہ بھى كر لے جو ايسے حالات سے واقف ہو، اور پھر اللہ تعالى سے استخارہ بھى كرے اور اسے ہر اہم كام ميں اللہ سے عاجزوانكسارى كے ساتھ دعاء بھى كرنى چاہيے.
واللہ اعلم .