الحمد للہ.
"صحیح بات یہی ہے کہ مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے، البتہ فقہائے کرام جو فرق بیان کرتے ہیں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور جو حدیث آپ نے سوال میں ذکر کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اور نماز ایسے پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو)اس میں سب مرد و خواتین شامل ہیں، بلکہ پوری شریعت اسلامیہ مرد و زن کیلیے یکساں ہے، البتہ وہاں فرق روا رکھا جائے گا جہاں کوئی دلیل موجود ہو؛ لہذا سنت یہی ہے کہ عورت بھی اسی طرح نماز پڑھے جیسے مرد نماز پڑھتا ہے اس کیلیے رکوع، سجدہ، تلاوت، سینے پر ہاتھ باندھنا وغیرہ تمام کے تمام امور یکساں ہوں گے اور یہی افضل ہے، اسی طرح دورانِ رکوع ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھا جائے گا اور سجدے کے دوران کندھوں یا کانوں کے برابر زمین پر ہاتھ رکھے جائیں گے، حالتِ رکوع میں کمر کو سیدھا رکھیں گے اور رکوع و سجدے کی دعائیں ، قومے اور قعدے کی دعائیں دوسجدوں کےد رمیان کی دعا سب کچھ مرد کی طرح عورتیں بھی سر انجام دیں گی ؛ تا کہ صحیح بخاری میں موجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (اور نماز ایسے پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو) پر عمل ہو جائے۔
البتہ اقامت اور اذان نماز سے الگ اعمال ہیں ، اس لیے اقامت اور اذان صرف مرد ہی کہیں گے؛ کیونکہ اس کے بارے میں نص آ گئی ہے کہ مرد ہی اذان دیں اور اقامت کہیں ، خواتین اقامت اور اذان نہیں کہیں گی۔
جبکہ جہری نمازوں یعنی فجر، مغرب اور عشا میں وہ قدرے بلند آواز سے تلاوت کر سکتی ہیں، لہذا فجر کی دونوں رکعتوں میں ، مغرب کی پہلی دو اور عشا کی بھی پہلی دو رکعتوں میں مردوں کی طرح جہری نماز پڑھ سکتی ہیں" انتہی
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ الله.