الحمد للہ.
مٹھائی یا کیک وغیرہ کو ذی روح چیزوں کی شکل دینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ تصویر کشی کے دلائل عام ہیں؛ جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(ہر تصویر کشی کرنے والا شخص جہنم میں جائے گا، مصور کی بنائی ہوئی ہر تصویر کے بدلے میں ایک جاندار بنایا جائے گا جو اسے جہنم میں عذاب دے گا۔) مسلم: (2110)
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (یقیناً قیامت کے دن اللہ تعالی کے ہاں شدید ترین عذاب مصوروں کو ہو گا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (5950) اور مسلم : (2109) نے روایت کیا ہے۔
دائمی فتاوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"تصویر کشی کی حرمت کا دار و مدار ذی روح چیز کی تصویر ہے چاہے وہ تصویر کھرچ کر بنائی جائے، یا دیوار پر پینٹنگ کے ذریعے، یا کپڑے، یا کاغذ یا کپڑے میں بُنائی کے ذریعے بنائی جائے، پھر چاہے یہ تصویر برش سے بنائی جائے یا قلم سے یا کسی تصویر کشی کے آلے کے ساتھ ، پھر چاہے تصویر اپنی فطری شکل میں ہو یا تصورات کی وجہ سے چھوٹی یا بڑی ہو گئی ہو، یا حد سے زیادہ خوبصورت یا بد صورت ہو گئی ہو، یا ہڈیوں کے ڈھانچے کی شکل میں ہو۔ ان تمام صورتوں میں تصویر کے حرام ہونے کی حرمت اس بات میں ہے کہ وہ ذی روح چیزوں کی تصویر ہے، چاہے وہ تصاویر خیالی ہوں جیسے کہ قدیم فرعون ، یا صلیبی جنگو کے قائدین اور فوجیوں وغیرہ کی۔" ختم شد
فتاوى اللجنة الدائمة" (1/696)
اہل علم نے واضح لفظوں میں تصویر بنانے کو حرام قرار دیا ہے، چاہے تصویر کسی مٹھائی یا کسی اور چیز کی بنائی جائے۔
جیسے کہ علامہ دردیر رحمہ اللہ "الشرح الكبير" (2/337-338) میں لکھتے ہیں:
"کسی عاقل یا غیر عاقل جانور کی مکمل اعضا کے ساتھ ایسی تصویر بنانا حرام ہے جو تا دیر باقی رہے، اس پر سب کا اجماع ہے۔ اسی طرح اگر کوئی تصویر ہمیشہ نہ رہے راجح موقف کے مطابق وہ بھی حرام ہے جیسے کہ تربوز کے چھلکے پر تصویر بنانا۔" ختم شد
اسی طرح قلیوبی رحمہ اللہ اپنے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
"تصاویر اور صلیب سونے یا چاندی یا مٹھائی وغیرہ کی بنائی جائے تو انہیں فروخت کرنا صحیح نہیں ہے۔" ختم شد
حاشية قليوبي" (2/198)
مذکورہ بالا تفصیلات کی بنا پر مٹھائی کی مورتی بنانا حرام ہے، اور اسی طرح انہیں فروخت کرنا بھی حرام ہے۔
واللہ اعلم