جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

بيوي اسلام قبول نہيں كرنا چاہتي ليكن اولاد پيدا كرنا چاہتي ہے

13253

تاریخ اشاعت : 27-12-2004

مشاہدات : 8048

سوال

ميں پيدائشي طور پر ہي مسلمان ہوں، ليكن تين برس سے پہلے كبھي روزے كےعلاوہ كوئي اور عبادت نہيں كي، ميں نے پانچ برس قبل ايك امريكي لڑكي سے شادي كي جو كہ غيرمسلم ہے اور اپنے دين پر عمل پيرا ہے، ميں اسے شادي سے بھي پانچ برس قبل سے جانتا ہوں اور ميري تمنا تھي كہ يہ لڑكي ہدايت يافتہ ہو كر اسلام قبول كرلے ليكن ايسا نہيں ہوسكا، ہم نےاس سلسلہ ميں بات چيت كي ليكن اس نے يہ كہا كہ اس كا اسلام قبول كرنا ناممكن ہے يہ كبھي نہيں ہوسكتا.
وہ بہت اچھي عورت ہے اور اس كے خاندان والے بھي اچھے ہيں ، ميں جب امريكہ ميں رہنے كےليے گيا توان لوگوں نے ميري بہت مدد كي، وہ چاہتي ہے كہ اولاد جلدي ہو اور ميں بھي يہي چاہتا ہوں ليكن ميں جب بھي يہ سوچ وبچار كرتا ہوں كہ ميرے بچے دين اسلام كےعلاوہ كسي اور دين پر بود باش اختيار كريں گے تومجھے يہ عذاب محسوس ہوتا ہے، حالانكہ وہ اس پر موافق ہے كہ بچے مسلمان ہوں اوردين اسلام پر زندگي بسر كريں، اس كا كہنا ہے كہ وہ انہيں اسلامي تعليمات سےروشناس كرائےگي اور انہيں كسي دوسرے دين كي تعليم حاصل كرنے سے نہيں روكےگي، وہ دين اسلام كےمتعلق كچھ زيادہ تونہيں جانتي ليكن يہ كہتي ہے كہ وہ دين اسلام كےمتعلق وقت سيكھے اور مطالعہ كرےگي جب اسے حمل ہوگا، ميں اس معاملہ ميں بہت زيادہ خوفزدہ اور غمگين ہوں، اور تين بار اس شادي كو ختم كرنے كي كوشش كر چكا ہوں ليكن ہر بار وہ رونا شروع كرديتي ہے تو اس كےمتعلق ميرا دل نرم ہو جاتا ہے، اور ميں يہ فيصلہ كرتا ہوں كہ ميں اسے ايك اور موقع دوں، وقت بہت تيزي سے گزر رہا ہے ميرے خيال كےمطابق ميں اس سے اولاد پيدا نہيں كرسكتا، اور اگر ميں اس سے اولاد پيدا نہيں كرتا تو وہ بہت زيادہ ناراض ہو گي اور ہم ايك دوسرے سے جدا ہو جائيں گے چاہے اس وقت يا پھر مستقبل ميں، ميري گزارش ہے كہ مجھے كوئي مشورہ ديں ميں كيا كروں ، اور اگر ميں اسے طلاق ديتا ہوں تواس كےمجھ پر كيا حقوق ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہم آپ كو نصيحت كرتےہيں كہ آپ دين اسلام پر پختگي سےقائم رہيں اور ديني شعائر نماز، زكاۃ اور روزہ وغيرہ كي حفاظت كريں اور ان كي ادائيگي كرتےرہيں، اور اس بيوي كےلئے آپ كوايك نمونہ اور آيڈيل بن كر رہنا چاہيئے ہو سكتا ہے كہ اللہ تعالي اسےآپ كےہاتھوں ہدايت نصيب كردے اور اس كي بنا پرآپ خيرعظيم حاصل كرنےكي سعادت حاصل كريں.

دوم:

اس عورت سے اولاد پيدا ہونےكي صورت ميں آپ كا اولاد كي دين اسلام كےعلاوہ كسي اور دين پر پرورش پانے كےخوف سے پريشان رہنے سے آپ كا اپنےاوراپني اولاد كےلئے دين اسلام كي حرص كا علم ہوتا ہے، اور اس ميں كوئي شك نہيں كہ آپ كا يہ معاملہ بہت اچھا ہے اور ضرورت اس بات كي ہے كہ اس اطمنان كو پورا كرنے كےليے آپ زيادہ سےزيادہ اللہ تعالي سےدعا كيا كريں كہ وہ آپ اور آپ كي اولاد كےدين كي حفاظت فرمائے، اور آپ كو شرعي استخارہ بھي كرنا چاہئےاور اس كےساتھ ساتھ اللہ تعالي سےشرح صدر كا سوال بھي كرنا چاہيے كہ وہ آپ كو اس عورت كےساتھ رہنے اور اس سےاولاد پيدا كرنے يا پھر اس چھوڑ كر كسي مسلمان جو كہ دين اسلام پر عمل كرتي ہو اس سے شادي اوراپنےدين كےليے صحيح اورسليم طريقہ كي توفيق دے، جس سے آپ اپني اولاد كےبارہ ميں اللہ تعالي كےحكم سے بےخوف رہيں.

اور آپ يقين سےبات جان ليں كہ جو كوئي بھي اللہ تعالي كے ليے كوئي چيز ترك كرتا ہے اللہ تعالي اسے اس كا نعم البدل اور اس سے بہتر اور اچھي چيز مہيا كرتا ہے، جيسا كہ يہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم سے حديث ميں بھي ثابت ہے.

آپ كو چاہيے كہ آپ اپني بيوي كےاس شديد تعلق سے فائدہ حاصل كريں كہ وہ آپ كو بہت چاہتي ہے، اور آپ اسے اس بات كي وضاحت كرديں كہ اگر اس كي محبت اور آپ كےدين كي سلامتي ميں تنازع ہو تو آپ اپنےدين كي سلامتي كو مقدم ركھيں گے، ہو سكتا ہے كہ يہ كام اسے اللہ تعالي كےدين حق دين اسلام ميں داخل ہونے كا باعث بن جائے.

يہ بات اپنے علم ميں ركھيں كہ آپ كےليے جائزنہيں كہ آپ اسے اس كي رضامندي اور اطمنان كےبغير دين اسلام قبول كرنے پر مجبور كريں، كيونكہ اس كا مجبوري اور زبردستي اسلام ميں داخل ہونا اسے كوئي فائدہ نہيں دےگا جيسا كہ ابن كثير رحمہ اللہ تعالي نے ذكر كيا ہے ( 1 / 311 ) .

اور كتابي عورتوں سےشادي كرنے كےكيا اثرات پيدا ہوتے ہيں اس كي تفصيل جاننےكےليے آپ سوال نمبر ( 20227 ) كےجواب كا مطالعہ ضرور كريں.

سوم:

اگرتوآپ كےوسائل اتنےمہيا ہيں كہ اولاد پر ان كي ماں اور اس كا خاندان اثرانداز ہونے كا خدشہ نہ اور اور آپ اپني اولاد كي اسلامي تربيت كريں اوور انہيں ديني اور اخلاقي انحراف سےبچا سكتےہوں تو اپني اس بيوي سے اولاد پيدا كرنے ميں كوئي حرج نہيں اگرچہ وہ اپنےدين پر ہي قائم رہے، جبكہ اولاد پيدا كرنا بيوي كا بھي حق ہے، اور ہوسكتا ہے ايسا كرنا اس كےليے دين اسلام سيكھنے اور پڑھنے ميں مددگار ومعاون ثابت ہو جيسا كہ اس نے وعدہ بھي كيا ہے.

چہارم:

ضروري ہے كہ آپ كسي اسلامي ملك كي طرف ہجرت كريں جہاں آپ اپني اولاد كي صحيح اسلامي تربيت كرسكيں چاہےآپ اس بيوي كےساتھ ہي رہيں يا كسي اور سے شادي كرليں، اس ليے كہ كفار كےممالك ميں بغير كسي ضرورت اور مصلحت كےرہائش اختيار كرنا جائزنہيں الا يہ كہ دعوت وتبليغ يا پھر ايسا علم حاصل كرنےكےليےجس كي مسلمانوں كو ضرورت ہو اور ان كےملك ميں يہ علم موجود نہ ہو، ليكن اس ميں بھي شرط يہ ہے كہ اپنا دين ظاہر اور اسےبيان كرسكتا ہو تو پھر رہ سكتا ہے وگرنہ نہيں كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

( ميں ہر اس مسلمان شخص سےبري ہوں جو مشركوں كےدرميان رہتا ہے ) سنن ابوداود حديث نمبر ( 2645 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح ابوداود ميں اسےصحيح قرار ديا ہے.

اس مسئلہ ميں مزيد تفصيل جاننے كےليے سوال نمبر ( 13363 ) كے جواب كا مطالعہ كريں .

پنجم:

اور طلاق ہوجانےكي صورت ميں بيوي مہر كي حقدار ہے اگر مہر موخر كيا گيا ہو، ليكن دوران عدت رہائش اور نان ونفقہ طلاق كےاعتبار سے مختلف ہوگا.

لہذا جس شخص نےبيوي كو ايك طلاق رجعي دي تو دوران عدت اسے رہائش اور نان ونفقہ بھي حاصل ہوگا، اور اسي طرح وہ اس مدت ميں زوجيت باقي رہنےكےباعث خاوند كي وارث اور خاوند اس كا وارث ہوگا.

طلاق رجعي والي عورت كو رہائش حاصل ہونے كي دليل مندرجہ ذيل فرمان باري تعالي ہے:

اے نبي صلي اللہ عليہ وسلم ( اپني امت سےكہو كہ ) جب تم اپني بيويوں كو طلاق دينا چاہو توان كي عدت ( كےدنوں كےآغاز ) ميں انہيں طلاق دو اور عدت كا حساب ركھو، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو انہيں ان كے گھروں سےنہ نكالو اور نہ ہي وہ خود نكليں ، ہاں يہ اوربات ہے كہ وہ كھلي برائي كر بيٹھيں يہ اللہ كي مقرر كردہ حديں ہيں، جو شخص اللہ كي حدوں سے تجاوز كرےگا اس نے يقينا اپنےاوپر ظلم كيا، تم نہيں جانتے شائد اس كےبعد اللہ تعالي كوئي نئي بات پيدا كردے الطلاق ( 1 )

تواگر خاوند عدت ختم ہونےتك بيوي سےرجوع نہيں كرتا تو پھر نئے نكاح كےبغير وہ واپس اس كےپاس نہيں آسكتي .

اور جس نےاپني بيوي كو طلاق بائن دي تواس كي بيوي كو دروان عدت نہ تو رہائش ملےگي اور نہ ہي نان ونفقہ ليكن اگر حاملہ ہو تو پھر ملےگا.

اور طلاق بائن كي دو قسميں ہيں: بينونہ صغري اور بينونہ كبري .

بينونہ صغري يہ ہےكہ: دخول ( رخصتي ) سےقبل ہي طلاق ہوجائے، يا عوض ميں طلاق ہو.

اور بينونہ كبري يہ ہےكہ: تين طلاقيں مكمل ہو جائيں.

طلاق بائن والي عورت كو نان ونفقہ اور رہائش نہ ملنے كي دليل مندرجہ ذيل حديث ہے جسے امام مسلم نےروايت كيا ہے:

شعبي رحمہ اللہ تعالي بيان كرتےہيں كہ ميں فاطمہ بنت قيس رضي اللہ تعالي عنہا كےپاس گيا اور ان سے ان كےمتعلق نبي صلي اللہ عليہ وسلم كےفيصلہ كےمتعلق دريافت كيا تو وہ كہنےلگيں:

ان كےخاوند نےانہيں طلاق بتہ ( بائن ) دے دي تو ميں نے نان ونفقہ اور رہائش كےبارہ ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم كےسامنے مقدمہ پيش كيا تو نبي صلي اللہ وسلم نے نہ تو ميرے ليے نان ونفقہ اور نہ ہي رہائش كا فيصلہ ديا، اورمجھےحكم ديا كہ ميں ابن ام مكتوم رضي اللہ تعالي عنہ كےگھر ميں اپني عدت پوري كروں. صحيح مسلم حديث نمبر ( 1480 ) .

اور مسلم شريف كي ايك روايت ميں ہےكہ:

انہوں نےكہا: تو ميں اس كا ذكر نبي صلي اللہ عليہ وسلم سےكيا تو وہ فرمانےلگے: تيرے ليے نہ تو نان ونفقہ ہے اور نہ ہي رہائش .

اور ابوداود كي ايك روايت ميں ہے:

تيرے ليے نان ونفقہ نہيں ليكن اگر تم حاملہ ہو تو پھر.

واللہ اعلم  .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب