سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

اگر طلاق كے معانى كى سمجھ نہ ہو تو طلاق كے الفاظ بولنے سے طلاق واقع نہيں ہو گى

133621

تاریخ اشاعت : 20-09-2011

مشاہدات : 4100

سوال

ميں نے طلاق كے موضوع كے بارہ ميں بہت سارى آراء كا مطالعہ كيا ہے، اس سلسلہ ميں آپ كى رائے معلوم كرنا چاہتا ہوں ليكن آپ دلائل كے ساتھ بيان كريں كہ اگر كوئى شخص جو عربى نہيں جانتا اور طلاق كے معانى كو نہ سمجھتا ہو تو طلاق كے الفاظ بولنے سے طلاق واقع ہو جائيگى يا نہيں ؟
جس بنيادى نقطہ كے متعلق ميں سوال كرنا چاہتا ہوں وہ يہ ہے كہ جس چيز كو وہ بنيادى طور پر جانتا ہى نہيں كيا اس كا بھى وہ ذمہ دار ہوگا ( مثلا كلمہ طلاق كا استعمال كرنا ) ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

طلاق اس وقت واقع ہوتى ہے جب خاوند طلاق كے معانى كو سمجھتے ہوئے طلاق كے الفاظ بولے، اور اگر اس كے معانى كو نہ سمجھتا ہو تو طلاق واقع نہيں ہوگى.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر غير عربى شخص نے اپنى بيوى كو كہا: تجھے طلاق " اور وہ اس كے معانى اور مفہوم كو سمجھتا ہى نہ ہو تو طلاق واقع نہيں ہوگى، كيونكہ اس نے طلاق اختيار نہيں كى، تو مكرہ يعنى مجبور كردہ شخص كى طرح اس كى بھى طلاق واقع نہيں ہو گى...

اسى طرح اگر كسى شخص نے كلمہ كفر ادا كيا اور اسے اس كے معانى نہ آتے ہوں تو وہ اس سے كافر نہيں ہوگا " انتہى

ديكھيں: مغنى ابن قدامہ ( 10 / 373 ).

اور شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جو شخص طلاق كے معانى كى سمجھ نہ ركھتا ہو اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى چاہے وہ مكلف ہى ہو "

فرض كريں اگر كوئى عجمى شخص طلاق كے معانى نہيں جانتا اور اس نے عربى زبان ميں طلاق كے الفاظ بول ديے اور وہ اس كے معانى اور مفہوم كو نہ سمجھتا ہو تو اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى، كيونكہ وہ اس كے معانى كو ہى نہيں سمجھتا " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 16 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب