ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

ميت اٹھانے ميں ايك دوسرے سے سبقت لے جانا

13699

تاریخ اشاعت : 31-03-2009

مشاہدات : 6250

سوال

ميں مسلمانوں كے بہت سے جنازوں ميں ديكھتا ہوں كہ لوگ ميت كى چارپائى كو اٹھانے كے ليے ايك دوسرے كو دھكے ديتےاور پيچھے سے آگے جاتے ہيں، اور پھر دوسروں كے ليے جگہ چھوڑتے ہيں، اور اس طرح بہت سے لوگ بارى بارى چارپائى اٹھاتے ہيں.
اور جب ميں نے ان سے اس كا سبب پوچھا تو ان كا جواب تھا: يہ اس ليے كيا جاتا ہے تا كہ ميت كو اٹھانے كا اجروثواب سب حاصل كرسكيں، اور يہ كام غير عادى ہے، اور بعض اوقات چارپائى گرنے كا باعث بھى بنتا ہے، جيسا كہ كئى ايك واقعات ہوئے ہيں، كيا اسلام ميں اس كى كوئى اساس ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے جنازہ كے ساتھ جانا سنت صحيحہ سے ثابت ہے.

بخارى اور مسلم رحمہ اللہ تعالى نے اپنى صحيح ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت بيان كي ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مسلمان شخص كے مسلمان پر پانچ حق ہيں: سلام كا جواب دينا، اور مريض كى بيمارى پرسى و عيادت كرنا، جنازہ كے ساتھ جانا، اور دعوت قبول كرنا، اور چھينك لينے والے كو دعا دينا"

اور بخارى و مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے ہى روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو شخص جنازہ ميں نماز جنازہ تك شريك رہتا ہے اسے ايك قيراط اور جو ميت كو دفن كرنے تك اس كے ساتھ رہتا ہے اسے دو قيراط اجر ملتا ہے، عرض كيا گيا: دو قيراط كيا ہيں؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" دو عظيم پہاڑوں كى طرح"

اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ جس نے ميت كو اٹھايا يا اسے اٹھانے ميں معاونت كى حتى كہ اسے دفن كر ديا جائے تو اسے يہ اجر عظيم حاصل ہو گا، بلكہ اسے اس سے بھى زيادہ حاصل ہو سكتا ہے، كيونكہ مسلمان شخص كا جنازہ اٹھانے ميں ميت كے ساتھ احسان ہے، اگرچہ اسے اٹھانے كى مشروعيت ميں كوئى حديث وارد نہيں، ليكن عموما شريعت كے قواعد اس كى مشروعيت پر دلالت كرتے ہيں.

ليكن اگر يہ احسان مذكورہ نقصان و ضرر كا باعث بنتا ہے تو پھر اس نقصان و ضرر كو دور كرنا مصلحت كو حاصل كرنے پرمقدم ہے، لھذا جو اسے اٹھانے كے اجرو ثواب كے حصول كاطمع ركھتا ہے، وہ اس شخص كے اجروثواب سے بڑھ كر نہيں جو اپنے مسلمان بھائيوں پر شفقت كرتے ہوئے اسے اٹھانا ترك كرتا ہے، اور وہ اسے اٹھانے سے عاجز نہيں ہے .

ماخذ: الشیخ سعد الحمید