جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

بیوی اپنے نان ونفقہ کے حق کوچھوڑدے توکیا دوسری شادی سے قبل اسے راضی کرنا ضروری ہے

13702

تاریخ اشاعت : 01-09-2003

مشاہدات : 6206

سوال

کیا ایسی عورت سے دوسری شادی کرنی جائز ہے جویہ کہے کہ اسے نان ونفقہ اورکسی بھی مادی تعاون کی ضرورت نہيں ؟
جب ایسا ہی ہو توپھر اگرپہلی بیوی اس شادی پرراضي نہ ہوتواس شادی کا حکم کیا ہوگا ؟ اوراس حالت میں کیا آدمی کے لیے دوسری شادی کرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


بیوی کا حق نان و نفقہ خاوند کے ذمہ واجب ہے اوروہ اسے ادا کرنا ہوگا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے :

مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کودوسرے پر فضيلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہيں النساء ( 34 ) ۔

لیکن اگر بیوی اپنے اس حق سے تنازل کرتے ہوئے چھوڑنے پر راضي ہوجائے تو یہ حق خاوند سے ساقط ہوجائے گا ۔

ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب بھی بیوی اپنے خاوند سے تقسیم اور نفقہ وغیرہ میں مصالحت کرتے ہوئے چھوڑ دے یا دونوں چھوڑنے پر راضي ہوجائے تویہ جائز ہے ۔ دیکھیں مغنی ابن قدامہ ( 7 / 244 ) ۔

اوررہا یہ مسئلہ کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت اوررضامندی تواس میں گزارش ہے کہ خاوند کے لیے دوسری شادی کرنے میں پہلی بیوی سے اجازت حاصل کرنا واجب نہيں ، لیکن اس کے لیے مشروع ہے کہ وہ اس کا دل بہلانے اورراضی کرنے کےلیے حتی الوسع کوشش کرے چاہے اسے اس میں مال بھی خرچ کرنا پڑے اوراس سے اچھے طریقے اورنرم رویہ کے ساتھ بات چیت ہی کیوں نہ کرنی پڑے جس کی بنا پر اس کا ڈر اورخوف کم ہو اوراس کی حمیت میں بھی کمی واقع ہو ۔

مستقل فتوی کمیٹی ( لجنۃ الدائمۃ ) سے دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت کے بارہ میں جب سوال کیا گيا تو اس کا جواب تھا :

خاونداگردوسری شادی کرنا چاہے تواس پر کوئي ضروری نہیں کہ وہ پہلی بیوی کوراضی کرے ، لیکن یہ اخلاقی طورپر ہونا چاہیے اورحسن معاشرت بھی ہے کہ پہلی بیوی کا خیال رکھے جس سے اس کی تکلیف کم ہو کیونکہ یہ عورتوں کی طبیعت میں شامل ہے کہ اس طرح کہ معاملات میں وہ بہت زيادہ تکلیف محسوس کرتی ہیں ۔

تواسے اچھی اوربہتر ملاقات اورملتے وقت کھلکھلاتے چہرے اورکوئي اچھی اوربہتر بات کرکے کم کرنا چاہیے اوراسے راضی کرنے کےلیے کچھ مال کی ضرورت پیش آئے تووہ بھی دینا چاہیے ۔ ا ھـ ۔

دیکھیں کتاب " فتاوی اسلامیہ ( 3 / 204 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال وجواب