جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

اسلام ميں مزاحيہ كلام اور لطيفے بيان كرنے كا حكم

13732

تاریخ اشاعت : 29-08-2007

مشاہدات : 8041

سوال

ہمارے دين اسلام ميں مزاحيہ كلام كرنے اور لطيفے بيان كرنے كا حكم كيا ہے، اور آيا يہ لہو الحديث ميں شامل ہوتى ہے يا نہيں، يہ علم ميں رہے كہ دين كے ساتھ مذاق نہيں، اس كے متعلق فتوى ديں كر عند اللہ ماجور ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مزاحيہ كلام اور لطيفہ اگر حق اور صدق كے ساتھ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور خاص يہ كثرت سے نہ ہو، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھى مزاح كرتے اور حق كے علاوہ كچھ نہ كہتے، ليكن اس ميں جھوٹ بولنا جائز نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اس شخص كے ليے تباہى ہے جو كلام كرتے وقت لوگوں كو ہنسانے كے ليے جھوٹ بولتا ہے، اس كے ليے ہلاكت و تباہى ہے، پھر اسكے ليے ہلاكت و تباہى ہے "

اسے ابو داود، نسائى، اور ترمذى نے جيد سند كے ساتھ روايت كيا ہے، اور اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

ماخذ: ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ للشيخ ابن باز ( 6 / 391 )