الحمد للہ.
اول:
کتاب و سنت کے دلائل اس بارے میں متواتر حد تک پہنچتے ہیں، اور امت مسلمہ کا ہر
زمان و مکان میں اس بات پر اجماع ہے کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم
انبیاء اور رُسل میں سب سے آخری نبی ہیں، اور آپ کے بعد جس کسی نے نبوت کا دعوی
کیا وہ شخص جھوٹا، اور دجال ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ
رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ
)
ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ
کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔[ الأحزاب:40]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث
میں یہ بات واضح طور پر ملتی ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا؛ اس لئے کہ آپ
کے بعد کوئی بھی نبوت کا دعوی کرے تو وہ شخص جھوٹا، کذّاب ، دجال، گمراہ، اور دوسروں
کو بھی گمراہ کرنے والا ہے ، چاہے شعبدہ بازی ، جادوگری، یا طلسمات کے ذریعے کچھ
معجزات کا اظہار ہی کیوں نہ کرے، ہر صورت میں اہل عقل و خرد کے ہاں آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے بعد دعوی نبوت محال اور گمراہی ہے،جیسا کہ اسود عنسی کے ہاتھوں یمن
میں، مسیلمہ کذاب کے ہاتھوں یمامہ میں رونما ہونے والے خرقِ عادت امور اسی قبیل سے
ہیں، اہل فہم و دانش، اور عقلمندوں کے ہاں یہ دونوں لوگ جھوٹے تھے، دونوں پر اللہ
کی لعنت ہو، اسی طرح قیامت کے دن تک آنے والے ہر جھوٹے دعویدار کا یہی حال ہوگا،
یہاں تک کہ دجال ان کی آخری کڑی ہو گا " انتہی
"تفسير ابن كثير" (6/430-431)
اور بخاری: (3455) ومسلم :(1842) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کے ہاتھ میں تھی جیسے ہی کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی نیابت کرتا تھا اور لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔
اور مسلم (523) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (مجھے دیگر انبیائے کرام پر چھ چیزوں کے ذریعے فضیلت دی گئی ہے: مجھے جوامع الکلم عطا کئے گئے ہیں، میری رعب اور دبدبے کے ذریعے مدد کی گئی ہے، مالِ غنیمت میرے لئے حلال کیا گیا، ساری زمین میرے لئے ذریعہ طہارت و مکانِ عبادت بنائی گئی ہے، مجھے ساری مخلوق کیلئے رسول بنا کر بھیجا گیا، اور میرے آنے سے نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیاہے )
اور سنن ترمذی میں امام ترمذی نے نقل
کیا ہے اور حدیث(2272) کو صحیح بھی کہا ہے، اس میں ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ
عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیشک نبوت و رسالت
منقطع ہو چکی ہے، چنانچہ میرے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے)
البانی نے اسے "صحیح ترمذی" میں صحیح کہا ہے، جبکہ مسند احمد کے محققین کا کہنا ہے
کہ اس حدیث کی سند صحیح مسلم کی شرائط پر ہے۔
دوم:
آخری زمانے میں عیسی بن مریم علیہ السلام کے نازل ہونے کے بارے میں بھی صحیح احادیث
اور دلائل موجود ہیں، اور آپ علیہ السلام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت
کے مطابق فیصلے کرینگے، اور اسی کی اتباع کرینگے، چنانچہ عیسی علیہ السلام نئی
رسالت و شریعت لیکر نہیں آئیں گے۔
بخاری: (2222) اور مسلم: (155) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب تم میں ابن مریم عدل و انصاف کرنے والے حاکم بن کر نازل ہونگے، وہ صلیب توڑ دینگے، خنزیر قتل کردینگے، اور جزیے کا خاتمہ کر دینگے، اور مالی فراوانی اتنی ہوگی کہ کوئی مال قبول نہیں کریگا)
عراقی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں
کہتے ہیں:
"اس سے مراد یہ ہے کہ اسی [محمدی] شریعت کے مطابق حکمرانی کرنے کیلئے نازل ہونگے،
انہیں مستقل نئی رسالت اور ناسخ شریعت دیکر نہیں بھیجا جائے گا، کیونکہ یہ شریعت
قیامت تک باقی رہے گی، منسوخ نہیں ہوگی، اور نہ ہی ہمارے نبی کے بعد کوئی نبی ہوگا،
جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے بالکل واضح ہے،اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم صادق ومصدوق ہیں، چنانچہ عیسی اس امت کے حاکم بن کر ہی آئیں گے" انتہی
"طرح التثريب" (8/ 117)
اور صحیح مسلم : (156)میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہتے ہوئے قتال کرتا رہے گا، وہ قیامت کے دن تک غالب رہیں گے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پھر عیسی بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم نازل ہونگے، تو اس وقت کا امیر کہے گا: "آگے بڑھیں اور ہمیں نماز پڑھائیں" تو عیسی علیہ السلام کہیں گے: "نہیں، تم خود ہی آپس میں ایک دوسرے پر امیر ہو، یہ اللہ تعالی نے اس امت کو شان بخشی ہے")
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے، اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا)متفق علیہ
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو الحسن آبری مناقب شافعی میں کہتے ہیں: "اس بارے میں احادیث متواتر ہیں کہ
مہدی اس امت میں سے ہونگے، اور عیسی علیہ السلام ان کے پیچھے نماز ادا کرینگے"،
اور ابو ذر ھروی کہتے ہیں: "ہمیں جوزقی نے کچھ متقدمین سے بیان کیا کہ حدیث کے
الفاظ: " تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا " کا معنی یہ ہے کہ اس وقت قرآن کو نافذ
کیا جائے گا، انجیل کو نافذ نہیں کیا جائے گا"، اسی طرح ابن تین رحمہ اللہ نے " تمہارا
امام تم ہی میں سے ہوگا " کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ: شریعت محمدی قیامت کے دن تک
جاری رہے گی، اور ہر صدی میں اہل علم کا ایک گروہ موجود رہے گا"، اور ابن جوزی رحمہ
اللہ کہتے ہیں: "اگر عیسی علیہ السلام امامت کیلئے آگے بڑھ جائیں تو دل میں ایک اشکال
پیدا ہو سکتا تھا، اور یہ کہا جا سکتا تھا کہ : "امت محمدیہ کیلئے نائب بن کر آگے
بڑھے ہیں، یا نئی شریعت لیکر ؟"تو وہ مقتدی بن کر نماز اد اکرینگے، تا کہ اس قسم کا
شبہ ہی پیدا نہ ہو، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرما دیا: "میرے بعد کوئی
نبی نہیں ہوگا" اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"ان احادیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ عیسی علیہ السلام آخری وقت میں نازل
ہونگے، وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نافذ کریں گے، اوراس امت کا
نزولِ عیسی علیہ السلام کے وقت بھی نماز وغیرہ کیلئے امام اسی امت میں سے ہوگا،اور
اس لئے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے سلسلہ نبوت کے خاتمے اور عیسی
علیہ السلام کے دوبارہ نازل ہونے کے بارے میں کوئی تعارض نہیں ہے؛ کیونکہ عیسی علیہ
السلام کوئی نئی رسالت لیکر نہیں آئیں گے، ابتدا سے انتہاء تک حکمرانی صرف اللہ
تعالی کی ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اور جیسے چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے، حکم الہی
کو کوئی چیلنچ نہیں کر سکتا، وہی غالب و حکمت والا ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (3 / 301-302)
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کا یہ بھی
کہنا ہے کہ:
"قرآن مجید میں عیسی بن مریم کے بارے میں زندہ آسمان کی طرف اٹھائے جانے، اور نبوت
و رسالت کیساتھ نازل ہونے کا واضح بیان موجود ہے؛ یہ آپکی آسمانوں کی طرف اٹھائے
جانے سے پہلے والی نبوت و رسالت کا ہی حصہ ہوگا، لیکن اس دوران وہ اپنی شریعت کی
دعوت نہیں دینگے، بلکہ عقائد میں اسلامی اصولوں کی طرف دعوت دینگے، جو کہ تمام
انبیاء اور رسولوں کی دعوت رہی ہے، اور فقہی مسائل میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ
وسلم کی شریعت کا پرچار کرینگے، چنانچہ عیسی علیہ السلام نئی نبوت و رسالت کیساتھ
نہیں آئیں گے، اس لئے انکا آنا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے
سے متصادم نہیں ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (3 / 328-329)
سوم:
یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ قادیانی فرقہ گمراہ ، اور خبیث فرقہ ہے، علمائے کرام نے
انکی طرف نسبت رکھنے والے لوگوں کے بارے میں "کفر" کا فتوی دیا ہے؛ اس کی وجہ یہ
ہے کہ ان کے عقائد میں کفریہ، اور واضح گمراہی پر مشتمل نظریات موجود ہیں، جیسے کہ
وہ اپنے سربراہ غلام احمد قادیانی کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں، اسی غلام احمد
قادیانی نے استعماری قوتوں کی خدمت کرنے کیلئے جہاد فی سبیل اللہ کے منسوخ ہونے کا
دعوی کیا، حج بیت اللہ کو منسوخ کہا، اور قادیان کا حج کرنے کی ترغیب دی، قادیانیوں
کے ہاں قادیان کا علاقہ مکہ اور مدینہ سے بھی افضل ہے۔
قادیانیوں کا اپنے گمراہ، دجال امام کے بارے میں یہ ماننا ہے کہ وہ اللہ کا بیٹا ہے، یہ لوگ تناسخ الارواح اور حلول کے بھی قائل ہیں، یہ لوگ اللہ تعالی کو انسانوں سے تشبیہ دیتے ہیں، اس کے علاوہ بھی ان کے بہت سے کفریہ عقائد ہیں۔
قادیانیوں کی مزید حقیقت جاننے کیلئے آپ سوال نمبر: (4060) کا جواب لازمی ملاحظہ کریں۔
ہم آپکو یہ بھی مشورہ دیں گے کہ قادیانیوں سے یا کسی اور گمراہ بدعتی فرقے سے وہ شخص گفتگو اور مباحثہ کرے جس کے پاس مکمل اہلیت موجود ہے، جس کے پاس شرعی علم ہے، وہی ان سے بات کرے جو ان بدعتی گروہوں کے مذہب و نظریات کو سمجھتا اور جانتا ہے، اور ان کے بارے میں اہل علم کی جانب سے دی جانے والی رائے بھی جانتا ہے۔
واللہ اعلم.