جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

بيوى كو طلاق دينے سے قبل سالى سے شادى كر لى كيا ان كى اولاد زنا كى اولاد شمار ہو گى ؟؟

139452

تاریخ اشاعت : 17-01-2010

مشاہدات : 11382

سوال

ميرے والد نے ميرى خالہ سے شادى كى اور بيمار ہوئى تو انہيں دماغى ہاسپٹل ميں داخل كرا ديا گيا، مجھے علم نہيں كہ والد صاحب نے ميرى والدہ سے نكاح كرنے سے قبل ميرى خالہ كو طلاق دى تھى يا نہيں، اور پھر ميرى خالہ فوت ہو گئى اور ميرى والدہ سے چا ربيٹے پيدا ہوئے، كيا ميں اور ميرے بھائى حرام اور زنا كى اولاد شمار ہونگے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

علماء كرام كے ہاں جن عورتوں سے نكاح كرنا حرام ہے اور اس ميں كوئى اختلاف نہيں ان ميں دو بہنوں كو ايك ہى نكاح ميں جمع كرنا شامل ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے محرم عورتوں كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور يہ كہ تم دو بہنوں كو جمع كرو النساء ( 23 ).

قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" امت كا اجماع ہے كہ اس آيت كى بنا پر دو بہنوں كو ايك ہى نكاح ميں جمع كرنا منع ہے " انتہى

ديكھيں: الجامع لاحكام القرآن ( 5 / 116 ).

اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" ايك ہى نكاح ميں دو بہنوں كو جمع كرنا كتاب و سنت كى صريح نصوص كى بنا پر حرام ہے، چاہے وہ بہنيں سگى ہوں يا پھر والد كى جانب سے يا ماں كى جانب سے، اور چاہے وہ دونوں بہنيں نسب سے ہوں يا رضاعت سے، آزاد ہو يا لونڈياں يا پھر ايك آزاد اور ايك لونڈى.

صحابہ كرام اور تابعين عظام اور سب سلف اس پر متفق ہيں اور ابن منذر رحمہ اللہ اس قول پر اجماع نقل كيا ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 235 ).

اس بنا پر اگر تو آپ كے والد نے آپ كى خالہ كو طلاق دينے اور اس كى عدت گزرنے كے بعد آپ كى والدہ سے شادى كى تو اس ميں كوئى اشكال نہيں ہے.

ليكن اگر اس نے آپ كى خالہ كو طلاق دينے يا پھر اس كى عدت گزرنے سے قبل آپ كى والدہ سے شادى كر لى تو يہ شادى باطل ہے، اور اس كے ليے اس عورت سے عليحدگى كرنا ضرورى ہے اور اس عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ اس شخص كو اپنے قريب آنے دے.

اور جب اس كى عدت گزر جائے تو پھر اس كے ليے جائز ہے كہ وہ نئے مہر اور نكاح كے ساتھ اس سے شادى كر لے.

دوم:

يہ نكاح اگرچہ باطل تھا ليكن اس سے نسب ثابت ہوگا، عقد نكاح ميں شبہ كى موجودگى كو مدنظر ركھتے ہوئے اس باطل نكاح سے اس كى اولاد زنا كى اولاد شمار نہيں ہو گى، ہو سكتا ہے اس كے خيال ميں ہو كہ پہلى بيوى سے حسى طور پر عليحدگى يعنى اس كا ہاسپٹل ميں داخل ہو جانا اس كے ليے اس كى بہن سے نكاح كو مباح كر ديتا ہے.

ابن قدامہ مقدسى رحمہ اللہ دو بہنوں سے نكاح كرنے والے شخص كے متعلق كہتے ہيں:

" اگر ان دو بہنوں ميں سے كسى ايك كا اس شخص سے بچہ پيدا ہو گيا يا پھر دونوں كا تو نسب ثابت ہوگا اور اس بچے كو اس شخص سے ملحق كيا جائيگا؛ كيونكہ وہ يا تو صحيح نكاح سے ہے، يا پھر فاسد نكاح سے، اور دونوں ميں ہى نسب ملحق ہوتا ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 6 / 58 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس نے بھى كسى عورت سے فاسد نكاح كيا جس نكاح كے فاسد ہونے پر اتفاق ہو، يا پھر اس كے فاسد ہونے ميں اختلاف پايا جاتا ہو، اور اس شخص نے اس عورت كو اپنى بيوى سمجھتے ہوئے اس سے وطئ اور مجامعت بھى كر لى تو اس سے پيدا شدہ اولاد اس شخص كى طرف ملحق ہو گى اور وہ ايك دوسرے كے وارث ہونگے اس ميں مسلمانوں كا اتفاق ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 14 ) مختصر.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص نے ايك عورت سے شادى كى اور پھر اس كے ساتھ اس كى بہن سے بھى نكاح كر ليا تو اس كا حكم كيا ہو گا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" ان كى يہ شادى صحيح نہيں؛ بلكہ باطل ہے، اور اس شخص اور اس كى آخرى بيوى كے مابين عليحدگى كرانا ضرورى ہے....

چنانچہ اس مرد اور عورت ميں عليحدگى كرانا واجب اور ضرورى ہے جس نے يہ حرام نكاح كيا ہے، اور اس عقد نكاح سے احكام نكاح ميں سے كچھ بھى ثابت نہيں ہو گا؛ ليكن اگر جہالت كى حالت ميں اگر ان كى اولاد پيدا ہو گئى تو يہ اولاد اس شخص كى طرف منسوب ہو گى اور وہ ان كا باپ كہلائيگا تو اس طرح يہ اولاد اپنے ماں اور باپ كى اولاد ہوگى "

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب