الحمد للہ.
زكاۃ كے وجوب كى كچھ شرائط ہيں:
آزادى:
لہذا غلام پر زكاۃ واجب نہيں ہے، كيونكہ مال اس كى ملكيت نہيں، اور اس كے پاس جو كچھ بھى ہے وہ اس كےمالك كا ہے، تو اس طرح اس مال كى زكاۃ مالك كےذمہ ہے.
اسلام:
دوسرى شرط اسلام ہے، كيونكہ حديث معاذ رضى اللہ تعالى عنہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" انہيں يہ گواہى دينے كى دعوت دو، كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى عبادت كے لائق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں"
پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز كا ذكر كيا اور پھر فرمايا:
" اگر وہ اس ميں تيرى بات تسليم كرتے ہوئے تيرى اطاعت كرليں تو انہيں يہ بتانا كہ اللہ تعالى نے ان پر زكاۃ فرض كى ہے، جو ان كے مالدار لوگوں سے ليكر ان كے فقيروں ميں تقسيم كى جائے گى"
صحيح بخارى كتاب الزكاۃ حديث نمبر ( 1365 ) صحيح مسلم كتاب الايمان حديث نمبر ( 28 ).
نصاب كا مالك ہونا:
لہذا جو شخص نصاب سے كم مال كا مالك ہو اس پر زكاۃ واجب نہيں، اور نصاب ايك معلوم مقدار ہے.
استقرار ملكيت:
يعنى اس كے ساتھ كسى دوسرے كے حق كا تعلق نہ ہو لہذا جس مال ميں ملكيت مستقر نہيں ہو گى اس ميں زكاۃ نہيں ہے.
مال پر سال كا گزرنا:
اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
وہ بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنا وہ فرما رہے تھے:
" جب تك مال پر سال نہ گزر جائے اس پر زكاۃ نہيں ہے "
سنن ابن ماجۃ كتاب الزكاۃ حديث نمبر ( 1782 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 1449 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
زكاۃ كے واجب ہونے كى يہ شروط ہيں جب يہ شروط پائى جائيں تو مال ميں زكا واجب ہو جاتى ہے.
تو اس بنا پر كہا جاتا ہے كہ: آپ تو مال كے مالك نہيں چہ جائيكہ ملكيت كا استقرار ہو، لہذا جب آپ مال كے مال بنيں گے اور اس ميں باقى شرائط بھى پائى جائيں تو اس كى زكاۃ ادا كريں.
زكاۃ كى شروط كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے شيخ فوزان كى كتاب " الملخص الفقھى ( 1 / 221 ) اور الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كى " الشرح الممتع ( 6 / 22 ) ديكھيں.
واللہ اعلم .