جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

عورت كے ليے نماز جنازہ پڑھنے كا حكم

14522

تاریخ اشاعت : 25-05-2009

مشاہدات : 17809

سوال

ہم ديكھتے ہيں كہ عورت نماز جنازہ ميں شريك نہيں ہوتى، سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ كيا يہ شرعى طور پر ممنوع ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز جنازہ مرد اور عورت دونوں كے ليے مشروع ہے، اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص جنازہ ميں نماز جنازہ ادا كرنے تك شريك ہوا اسے ايك قيراط، اور جو شخص اس كے دفن تك جنازے كے ساتھ رہا اسے دو قيراط اجر حاصل ہوتا ہے، صحابہ كرام نے عرض كيا گيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم دو قيراط كيا ہيں؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" دو عظيم پہاڑوں كى طرح" يعنى اجر وثواب سے

صحيح بخارى و صحيح مسلم.

ليكن عورتيں جنازہ كے ساتھ قبرستان نہيں جا سكتيں كيونكہ انہيں ايسا كرنے سے منع كيا گيا ہے، اس كى دليل صحيحين كى مندرجہ ذيل حديث ہے:

ام عطيۃ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" ہميں جنازہ كے ساتھ جانے سے منع كر ديا گيا ليكن يہ عزيمت نہ تھى"

صحيح مسلم شريف.

ليكن نماز جنازہ سے عورت كو منع نہيں كيا گيا چاہے نماز جنازہ مسجد ميں ادا كيا جائے يا گھر ميں يا عيد گاہ ميں، اور عورتيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ مسجد نبوى ميں نماز جنازہ ادا كيا كرتى تھيں، اور ان كے بعد بھى ادا كرتى رہيں.

ليكن قبروں كى زيارت مردوں كے ساتھ خاص ہے، جس طرح جنازہ كے ساتھ قبرستان جانا مردوں كے ساتھ خاص ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبروں كى زيارت كرنے والى عورتوں پر لعنت فرمائى ہے.

اور اس ممانعت ميں حكمت ـ واللہ اعلم ـ يہ ہے كہ: ان كے جنازہ كے ساتھ قبرستان جانے ميں وہ خود بھى اور دوسروں كو بھى فتنہ ميں پڑنے كا خدشہ ہے، اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميں نے اپنے بعد مردوں كےليے عورتوں سے زيادہ نقصان دينےوالا كوئى اور فتنہ نہيں چھوڑا "

صحيح بخارى و صحيح مسلم.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

ماخذ: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ فضيلۃ الشيخ بن باز رحمہ اللہ تعالى ( 13 / 133 )