الحمد للہ.
مشروع طلاق يہ ہے كہ مرد بيوى كو ايسے طہر ميں طلاق دے جس ميں اس نے بيوى سے ہم بسترى نہ كى ہو، اور اگر وہ اسے حيض يا نفاس ميں طلاق ديتا ہے تو يہ طلاق بدعى كہلاتى ہے.
فقھاء كرام نے طلاق بدعى ميں اختلاف كيا ہے، جمہور كے ہاں يہ طلاق واقع ہو جائيگى، اور بعض فقھاء كہتے ہيں كہ طلاق واقع نہيں ہوگى؛ كيونكہ طلاق بدعى حرام ہے، اور اس ليے بھى كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى جب آپ عورتوں طلاق ديں تو انہيں ان كى عدت كے آغاز ميں طلاق ديں الطلاق ( 1 ).
معنى يہ ہے كہ وہ جماع كے بغير طاہر ہوں، يہ قول اختيار كرنے والوں ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ شامل ہيں اہل ميں سے ايك جماعت نے ان كے اسى قول كو اختيار كيا ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا فتوى ہے:
" طلاق بدعى كى كئي ايك انواع و اقسام ہيں جن ميں يہ بھى شامل ہے كہ آدمى بيوى كو حيض يا نفاس يا پھر جس طہر ميں بيوى سے جماع كيا ہو طلاق دے، صحيح يہى ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 58 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے مشروع كيا ہے كہ عورت كو نفاس اور حيض سے پاكى كى حالت ميں اور ايسى حالت ميں طلاق دى جائے جس ميں بيوى سے ہم بسترى نہ كى گئى ہو، تو يہ شرعى طلاق ہوگى.
ليكن اگر كوئى شخص حيض يا نفاس يا پھر ايسے طہر ميں طلاق دے جس ميں بيوى سے ہم بسترى كى ہو يہ تو طلاق بدعى كہلاتى ہے، اور صحيح قول كے مطابق يہ طلاق واقع نہيں ہوگى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب آپ عورتوں كى طلاق ديں ت وانہيں ان كى عدت ( كے آغاز ) ميں طلاق ديں الطلاق ( 1 ).
معنى يہ ہے كہ وہ جماع كے بغير پاك ہوں، اہل علم نے اس كى تفسير كرتے ہوئے يہى كہا ہے كہ وہ وہ جماع كے بغير طہر ميں ہوں، يا پھر حاملہ ہوں يہ تو عدت كے ليے طلاق ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى الطلاق ( 44 ).
مزيد آپ فتاوى شيخ ابن باز ( 21 / 286 ) كا مطالعہ بھى كريں.
اس بنا پر آپ نے جو طلاق دى ہے كہ عورت نفاس كى حالت ميں تھى تو يہ طلاق واقع نہيں ہوئى.
مزيد آپ سوال نمبر ( 110488 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .