جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

بيوى كے نام لكھ كر ديے گئے سامان سے دستبردارى كى شرط پر خاوند كا رجوع كرنا چاہتا ہے

150617

تاریخ اشاعت : 18-12-2012

مشاہدات : 3618

سوال

ميرے خاوند نے مجھے طلاق دے دى ہے اور اب وہ اس شرط پر رجوع كرنا چاہتا ہے كہ ميں سارے سامان سے دستبردار ہو جاؤں، ابھى ميرى شادى كو صرف چار ماہ ہى ہوئے ہيں، كيا ايسا كرنا جائز ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ:

اول:

مہر بيوى كا ذاتى حق ہے چاہے مہر نقدى كى شكل ميں ہو يا سونے كى شكل ميں، يا پھر گھريلو سامان كى شكل ميں جيسا كہ بعض ممالك اور علاقوں ميں رواج پايا جاتا ہے.

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 2378 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

دوم:

اگر كوئى شخص بيوى كو طلاق دينے كے بعد رجوع كرنا چاہتا ہے تو اس كى دو حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

عدت ختم ہونے كے بعد رجوع كرے، اس حالت ميں نيا نكاح كرنا ضرورى ہے جو مكمل شروط و اركان كے ساتھ ہوگا يعنى اس ميں ولى كى موجودگى اور دو گواہ اور مہر كے علاوہ بيوى اور اس كے ولى كى رضامندى ضرورى ہے.

دوسرى حالت:

عدت كے اندر رجوع كيا جائے، اس حالت ميں عقد نكاح اور مہر كى ضرورت نہيں، اور نہ ہى بيوى اور اس كے ولى كى رضامندى كى ضرورت ہے، بلكہ خاوند گواہوں كى موجودگى ميں بيوى سے رجوع كر سكتا ہے چاہے بيوى كو علم بھى نہ ہو.

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 75027 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

سوم:

اگر كوئى شخص اپنى بيوى كو طلاق دے اور بيوى كا اس پر مہر مؤخر قرض ہو يا پھر بيوى كا سامان كى شكل ميں مہر قرض ہو اور وہ بيوى سے اس شرط پر رجوع كرنا چاہے كہ وہ اپنے اس مہر سے راضى و خوشى دستبردار ہو جائے تو يہ رجوع صحيح ہے؛ بيوى كو اپنے حق سے دستبردار ہونے كا حق حاصل ہے اگر وہ اس سے دستبردار ہو جاتى ہے تو اس ميں كوئى مانع نہيں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مسلمان اپنى شرطوں پر ( قائم رہتے ) ہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3594 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

بعض اوقات عورت يہ سمجھتى اور ديكھتى ہے كہ خاوند كے ساتھ رہنا طلاق حاصل كرنے سے بہتر ہے، اس ليے وہ اپنے كسى حق سے صرف اس ليے دستبردار ہو جاتى ہے كہ خاوند اسے اپنے ساتھ ہى ركھے اور طلاق نہ دے تو يہ صحيح ہے.

اسى كے متعلق اللہ عزوجل كا درج ذيل فرمان نازل ہوا ہے:

اور اگر كوئى عورت اپنے خاوند سے كسى قسم كى زيادتى يا بے رخى كا ڈر ركھتى ہو تو دونوں پر اس ميں كوئى گناہ نہيں كہ وہ آپس ميں كسى طرح كى صلح كر ليں، اور صلح بہتر ہے النساء ( 128 ).

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" يہ وہ عورت ہے جو اپنے خاوند كے پاس ہو اور خاوند اس كے پاس زيادہ نہ جانا چاہتا ہو اور اسے طلاق دے كر كسى دوسرى عورت سے شادى كرنا چاہے، تو وہ عورت خاوند كو كہے: تم مجھے طلاق مت دو اور اپنے نكاح ميں ہى ركھو، اور دوسرى عورت سے شادى بھى كر لو، اور ميرى بارى اور نفقہ سے تم آزاد ہو، تو اسى كے متعلق اللہ تعالى كا يہ فرمان ہے:

تو ان پر كوئى گناہ نہيں كہ وہ آپس ميں كوئى صلح كر ليں، اور صلح بہت بہتر ہے .

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5206 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب