الحمد للہ.
اول:
معنوی نقصان کے عوض میں مادی معاوضہ لینے کے حوالے سے متقدم علمائے کرام کے ہاں کوئی موقف نہیں ملتا، تاہم ان کے تعامل سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ اہل علم ایسی صورت میں مالی معاوضے کو جائز نہیں سمجھتے۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (13/40) میں ہے کہ:
"معنوی نقصانات کا مالی معاوضہ : ہمیں ایسی کوئی جگہ نظر نہیں آئی کہ جس میں فقہائے کرام نے مذکورہ تعبیر استعمال کی ہو، کیونکہ یہ تعبیر جدید دور کی ہے، اسی طرح ہمیں معنوی نقصانات میں مالی معاوضے کے بارے میں فقہی کتب میں اہل علم کی گفتگو بھی نہیں ملی۔" ختم شد
اس بنا پر شہرت کو ٹھیس پہنچانے کی صورت میں مالی معاوضہ طلب کرنا جائز نہیں ہے، چاہے یہ لیبر لا میں مسلمہ ہی کیوں نہ ہو۔
تاہم حکمران یا حکمران کے نائب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ زیادتی کرنے والے کو سزا دے، اور مفاد عامہ کے حصول کے لیے مناسب تعزیری سزا کے بعد مظلوم کا مقام معاشرے میں بحال کرے۔
دوم:
آپ کا یہ کہنا کہ میرا نام زبردستی اور ظلم کرتے ہوئے بیچ میں ڈالا گیا، تو فتوے میں اس موضوع پر بات نہیں ہوتی، اس کے متعلق فیصلہ کن گفتگو کرنے کے لیے آپ کا آجر کے ساتھ معاہدے کو دیکھنا ہو گا، اسی طرح لیبر لا کے شریعت سے مطابقت رکھنے والے قوانین کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا، اس کے لیے ضروری ہے کہ فریقین کی بات کو سنا جائے اور پھر ان کے درمیان فیصلہ کیا جائے۔
بہ ہر حال اگر یہ فرض کریں کہ آپ پر ظلم ہوا ہے، اور بینک آپ کو ملازمت سے برخاست نہیں کر سکتا تھا، تو پھر آپ کے ملازمت کی معاہدہ شدہ بقیہ مدت کی اجرت لینا جائز ہے۔
چنانچہ اگر بینک کے ساتھ آپ کا معاہدہ 2 سال کا تھا، اور اس میں سے ایک سال گزر گیا، تو اب آپ کے لیے بقیہ پورے ایک سال کی تنخواہ وصول کرنا جائز ہے؛ کیونکہ عقد اجارہ طرفین پر لازم ہوتا ہے اور اسے وقت سے پہلے فسخ کرنا تبھی جائز ہو گا جب کوئی معتبر وجہ بھی پائی جائے، چنانچہ اگر کوئی وجہ نہ پائی جائے تو پھر طرفین پر معاہدہ پورا کرنا لازم ہے۔
واللہ اعلم