سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ایک مسلمان رواداری اپنا کر بھی وقار اور عزت لوگوں میں کیسے برقرار رکھ سکتا ہے؟

163175

تاریخ اشاعت : 08-09-2024

مشاہدات : 10351

سوال

میرے ساتھ ایک  بہت بڑا مسئلہ ہے، وہ یہ ہے کہ میں ان دو چیزوں کو یکجا نہیں کر سکتا: یعنی کہ یا تو میں لوگوں کے ہمیشہ ساتھ سخت لہجے میں بات کروں یا پھر لوگوں کے ساتھ صرف رواداری اپناؤں اور ہر دو حالت میں لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں۔

میں ایسا کوئی طریقہ جاننا چاہتا ہوں کہ   میں رواداری بھی کروں اور اپنا حق بھی جانے نہ دوں اور میری عزت نفس بھی مجروح نہ ہو؟ کیا رواداری کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے حق سے دستبردار ہو جاؤں؟ میں نے کسی سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ تھی کہ آپ بہت زیادہ روادار تھے، لیکن اس کے باوجود آپ اشرف الخلق اور انتہائی معزز بھی تھے، میں ان دونوں چیزوں کو کیسے جمع کروں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

محترم سائل اگر آپ ہر دو حالت میں  اس کا حقیقی معنی اور مفہوم سمجھیں تو آپ کے ذہن میں موجود پیچیدگی ختم ہو سکتی ہے:

تو پہلا مسئلہ یہ ہے کہ:  سختی اور شدت  صرف ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو اللہ کے دشمن ہیں اور حربی کافر ہیں، جبکہ مومنوں کے ساتھ نرمی اور اچھا برتاؤ رکھا جاتا ہے، اسی طرح کافروں کو دعوت دینے کے لیے بھی نرمی برتی جاتی ہے؛ کیونکہ یہاں پر سختی کسی کام کی نہیں ہے، اگر سختی کریں گے تو مومنین بھی آپ سے متنفر ہو جائیں گے اور کافر بھی آپ کی دعوت سے مستفید نہیں ہوں گے۔

شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حکمت کا تقاضا ہے کہ مومنوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے نرمی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے، اسی طرح کافروں کو دعوت دیتے ہوئے بھی نرمی اپنائی جائے، جیسے کہ اللہ تعالی کا بھی فرمان ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ
ترجمہ: اللہ تعالی کی رحمت کے باعث آپ ان پر رحم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ۔[آل عمران: 159]

ایک اور مقام پر فرمایا:
فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى
ترجمہ: [موسی اور ہارون] تم دونوں اس [فرعون] کے ساتھ نرمی سے بات کرو، تاکہ وہ نصیحت پکڑے یا خشیت [الہی]حاصل کرلے۔[طہ:44]

تو ان جگہوں میں نرمی کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، نیز نرمی کی وجہ سے جو فوائد حاصل ہوں گے انہیں بھی ذکر کیا ہے۔

اسی طرح سختی  اور تند مزاجی کو بھی ان کی جگہوں میں استعمال کرنا حکمت کا تقاضا ہے جیسے کہ اللہ تعالی نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
يا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ
ترجمہ: اے نبی! کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کریں اور ان پر سختی کریں۔[التحريم:9]
یہاں سختی کا حکم اس لیے دیا ہے کہ یہاں دعوت دینے کا فائدہ ہی نہیں ہے، بلکہ اب صورتحال آگے پہنچ چکی ہے کہ اب جنگ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں، تو اب سختی  عین جنگ کا حصہ ہے، اللہ تعالی نے سختی اور نرمی دونوں کو امت کے خاص الخواص لوگوں کے اوصاف میں یکجا جمع کیا  اور فرمایا: (أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ) وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نہایت مشفق ۔[الفتح: 29]”

دوم:

دوسرے مسئلے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ: کیا معاف کر دینا ، وسعت نظری دکھانا افضل ہے یا اپنا حق وصول کرنا افضل ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ: بنیادی طور پر تو معاف کرنا ہی افضل ہے؛ لیکن ممکن ہے کہ معافی غیر مناسب جگہ پر دے دی جائے تو افضل نہیں ہو گی، بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ معاف کرنے والے کو گناہ بھی ملے، چنانچہ ہر چیز کو اس کی مناسب جگہ پر رکھنا  ہی آپ کے مسئلے کا حل ہے۔

چنانچہ شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“انتقام اور بدلہ لینے کی موزوں جگہ الگ ہوتی ہے جہاں بدلہ بہتر ہوتا ہے،  جبکہ معافی کے لیے بھی مناسب مقام ہوتا ہے جہاں معاف کرنا اچھا ہوتا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ : کچھ ظلم ایسے ہوتے ہیں جن پر صبر اور خاموشی کی بنا پر حدود اللہ کی پامالی ہوتی ہے، مثلاً: کہ اگر کسی کی باندی کو کوئی اٹھا لے جائے اور اٹھانے والا اس سے زنا اور بد کاری کرے تو ایسے میں باندی کے مالک کا زنا اور بد کاری پر خاموش رہنا یا معاف کرنا  ذلت، خفگی، کمینگی اور سبکی نہیں ہو گی!؟ تو اس لیے ایسی صورت حال میں انتقام لینا واجب ہے، اور اسی صورت پر اللہ تعالی کا حکم ( فَاعْتَدُوا )[تم بھی زیادتی کرو] محمول کیا جائے گا۔ یعنی جیسے کافر تم سے قتال شروع کر رہے ہیں تو تم پر کافروں کے خلاف قتال کرنا  واجب ہے، لیکن اگر کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے بد سلوکی کرتا ہے ، یا زبان درازی کرتا ہے تو ایسی صورت میں اس کا معاف کرنا افضل اور بہتر ہے۔

اسی لیے شاعر ابو طیب متنبی نے کہا تھا:
إِذَا قِيْلَ حِلْمٌ قَالَ لِلْحِلْمِ مَوْضِعٌ *** وَحِلْمُ الْفَتَى فِيْ غَيْرِ مَوْضِعِهِ جَهْلُ

جب کہا گیا: بردباری سے کام لو، تو اس نے جواب دیا: بردباری کا اپنا مقام ہے، اور کڑیل جوان کی غیر مناسب جگہ پر بردباری بھی جہالت کی علامت ہوتی ہے۔”
ماخوذ از: ” دفع إيهام الاضطراب عن آيات الكتاب ” صفحہ: (32 ، 33 )

جو شخص معافی کے حقدار شخص کو معاف کر دے تو اس کے لیے دنیا و آخرت میں عزت اور مقام کی خوشخبری ہے؛ کیونکہ اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان پر عمل کیا ہے: (اور اللہ تعالی معاف کرنے کی وجہ سے بندے کی عزت میں ہی اضافہ فرماتا ہے) مسلم نے اسے  حدیث نمبر: (2588)   میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

معاف کرنے والے شخص کو آخرت میں اجر و ثواب سے بھی نوازتا ہے، اس کے دلائل تو بہت ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ . الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
ترجمہ: اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیز گاروں کے لئے تیار کی گئی ہے [133] جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے۔  اللہ حسن کارکردگی دکھانے والوں سے محبت کرتا ہے۔  [آل عمران: 133، 134]

تاہم معاف کرنے والا شخص مذکورہ ثواب اور اجر اسی وقت حاصل کر پائے گا جب اس میں درج ذیل امور پائے جائیں:

  1. درگزر اور معاف کرنے والا شخص اللہ تعالی سے اجر اور ثواب لینے کی نیت سے معاف کرے، یعنی اللہ کے لیے انتقام نہ لے، اس کی دلیل سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ابو بکر! تین چیزیں ساری کی ساری حق ہیں، (1) کسی بھی بندے پر ظلم کیا جائے اور وہ اللہ کے لیے اس سے چشم پوشی کر لیتا ہے تو اللہ تعالی اس عمل کے  عوض اسے عزت سے نوازتا ہے اور اس کی مدد بھی فرماتا ہے، (2)جو بھی  آدمی عطیہ دینے کا کوئی دروازہ صلہ رحمی کے لیے کھولے تو اس عطیے کی وجہ سے اللہ تعالی اسے ڈھیروں نوازتا ہے (3) جو بھی  آدمی سوال کرنے کا کوئی دروازہ مال جمع کرنے کے لیے کھولے تو اس سوال کی وجہ سے اللہ تعالی اسے قلت میں مبتلا کر دیتا ہے) اسے حدیث کو احمد (15/390) نے روایت کیا ہے اور مسند احمد کے محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے، نیز البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو سلسلہ صحیحہ: (2232) میں جید قرار دیا ہے۔
  2. معاف کرنے والا اپنا حق لینے پر قادر ہو، لہذا اپنی کمزوری اور ناتوانی کی وجہ سے معاف نہ کرے۔

یہ شرط معاف کرنے کے لغوی اور شرعی دونوں مفہوموں میں بالکل واضح ہے، نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (2/863) میں باب قائم کرتے ہوئے لکھا:  “باب ہے ظالم سے انتقام لینے کے بارے میں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا اللہ یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص دوسرے کے متعلق اعلانیہ بری بات کرے الا یہ کہ اس پر ظلم ہوا ہو ، اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے [النساء: 148]  اور اسی طرح فرمایا: وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ [الشورى: 39] ، ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ: “سلف اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے، لیکن جب وہ کسی پر حاوی ہو جاتے تو معافی سے کام لیتے تھے”” ختم شد

تو اس طرح بدسلوکی کرنے والے پر معاف کرنے والے کا دبدبہ اور رعب  بھی عیاں ہو جائے گا  کہ وہ انتقام اور بدلہ لینے کی کیفیت میں تھا  اس کے باوجود اس نے بدسلوکی پر انتقام نہیں لیا صرف اس لیے کہ وہ ایسے لوگوں میں شامل ہے جنہیں معاف کرنا اچھی بات ہے، اس طرح  معاف کرنے والا شخص اپنا رعب اور دبدبہ بھی قائم رکھ لے گا اور معاف کرنے کا اجر و ثواب بھی کما لے گا۔

فرمانِ باری تعالی ہے: فَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (36) وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (37) وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (38) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ (39) وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (40) وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ (41) إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (42) وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
ترجمہ: تمہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ دنیا کی زندگی کا ساز و سامان ہے اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے وہ ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسا کرتے ہیں۔ [36]  اور جو بڑے بڑے گناہوں  اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور جب انہیں غصہ آئے تو معاف کر دیتے  ہیں [37] اور جو اپنے پروردگار کا حکم مانتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے کام باہمی مشورہ   سے طے پاتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ [38] اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں  [39] اور برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے۔ پھر جو کوئی معاف کر دے  اور بہتری کی جانب بڑھے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ وہ ظالموں کو   قطعاً پسند نہیں کرتا۔ [40] اور جو شخص ظلم ہونے کے بعد بدلہ لے لے تو اس پر کوئی راستہ نہیں۔  [41] راستہ تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے اور زمین میں ناحق زیادتی کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے درد ناک عذاب ہے [42] اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو یہ بڑی ہمت  کا کام ہے۔ [الشورى: 36 – 43]

ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اللہ تعالی نے غصے کی حالت میں بھی  مخلوق کے ساتھ ان لوگوں  کے برتاؤ کو بخشش سے متصف کیا ہے، نیز انہیں معاف کرنے اور بہتری لانے کی ترغیب دلائی ہے، تاہم اللہ تعالی کے فرمان: وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ [الشورى: 39]  کا مطلب معاف کرنے  سے متصادم نہیں ہے؛ کیونکہ مقابلے میں اظہار قوت ہوتا ہے کہ انتقام لینے کی مجھ میں قوت ہے، لیکن اس کے باوجود وہ معاف کر دیتے ہیں؛ تو اس طرح معافی بھر پور انداز میں  ہوتی ہے، ابراہیم نخعی اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ: “سلف اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے، لیکن جب وہ کسی پر حاوی ہو جاتے تو معافی سے کام لیتے تھے”
اسی طرح مجاہد کہتے ہیں کہ: “سلف مومن کے لیے اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ اپنے آپ کو حقیر باور کروائے مبادا بد اخلاق لوگ ان پر دست درازی کرنے لگ جائیں” اس لیے جب مومن پر کوئی جارحیت کرتا ہے تو مومن انتقام لینے کے لیے اپنی قوت کا بھر پور مظاہرہ    کرتا ہے؛ لیکن پھر معافی سے کام لیتا ہے، سلف صالحین میں سے کئی ایک کے ساتھ ایسے معاملات ہوئے ہیں، ان میں عطا اور قتادہ بھی شامل ہیں” ختم شد
جامع العلوم و الحکم: (179)

  1. معاف کرنے پر مثبت نتائج کے امکانات ہوں، اس پر کوئی نقصان مرتب نہ ہوتا ہو۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:  فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ  یعنی : معاف کرنے والے اور بہتری کی جانب بڑھنے والے کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اشتہاری مجرم  کو معاف مت کرے جو لوگوں کو سر عام تکلیف پہنچاتا ہو، اور اس کام میں مشہور و معروف ہو؛ کیونکہ اگر ایسے شخص کو معاف کیا جائے گا تو اسے بد معاشی کی مزید کھلی چھٹی مل جائے گی، اس لیے ایسے اشتہاری مجرم کو معاف کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اس کو سزا دلوانا لازمی امر ہے، اور حسب استطاعت اس کے شر کو لوگوں سے دور رکھنا لازمی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“عدل کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: یعنی جو عدل کا اصل ہدف ہے، جس کے بارے میں حکم بھی دیا گیا ہے، اور اس قسم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے جس کا حکم بھی دیا جا سکے، اور وہ ہے لوگوں کے درمیان عدل کرنا۔

دوسری قسم: وہ ہے جس سے صرف احسان کرنا افضل ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنے مد مقابل شخص کے ساتھ خون، مال اور عزت آبرو میں عدل کرے، مد مقابل سے اپنا پورا حق لینا عدل ہے، اور معاف کرنا احسان ہے، یہاں احسان افضل عمل ہے، لیکن یہ احسان اسی وقت احسان بنے گا جب عدل کیا جائے گا، اور عدل اسی وقت ہو گا جب معاف کرنے کی وجہ سے منفی اثرات مرتب نہ ہوں، چنانچہ اگر معاف کرنے کی وجہ سے منفی اثرات مرتب ہوں تو یہ ظلم بن جائے گا، یعنی معاف کرنے کی بنا پر انسان اپنے آپ پر یا دوسرے پر ظلم کرے گا ، اس لیے ایسی صورت میں معاف کرنا شرعاً جائز نہیں ہو گا۔” ختم شد
جامع المسائل ” ( 6 / 38 )

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (اور اللہ تعالی معاف کرنے کی وجہ سے بندے کی عزت میں ہی اضافہ فرماتا ہے) کی شرح میں بیان کرتے ہیں کہ:

“اس حدیث میں معاف کرنے کی ترغیب ہے، لیکن یہاں بیان شدہ معافی مطلق نہیں ہے، بلکہ مقید ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ
ترجمہ: معاف کرنے والے اور بہتری کی جانب بڑھنے والے کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔[الشوری: 40] لہذا اگر معاف کرنے کی وجہ سے بہتری نہ ہو بلکہ خرابی پیدا ہوتی ہو تو پھر ایسی صورت میں معاف کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، اس کی مثال یوں سمجھیں کہ: ایک مشہور و معروف بد معاش شخص نے کسی کو مارا پیٹا، تو کیا ہم اس مظلوم کو یہ کہیں گے کہ تم اس بد معاش کو معاف کر دو؟ ہم اسے معاف کرنے کا نہیں کہیں گے؛ کیونکہ وہ بد معاش انسان ہے، اگر اب تم اسے معاف کر دو گے تو وہ کل کسی اور پر بھی زیادتی کرے گا، یا تمہیں ہی مارے پیٹے گا۔ تو ایسی صورت میں ہم کہیں گے یہاں اس کے خلاف کھڑے ہو جانا افضل ہے، آپ اسے اس جرم کی بنا پر پکڑیں، اپنا حق اس سے وصول کریں اور اسے بالکل معاف نہ کریں؛ کیونکہ بد معاش لوگوں کو معاف کرنے سے بہتری نہیں آتی بلکہ اس سے تو فساد اور برائی میں اضافہ ہوتا ہے، تاہم اگر آپ کے معاف کرنے کی بنا پر خیر  و بھلائی کی توقع ہو کہ آپ کے معاف کرنے کی وجہ سے اسے شرم اور حیا آ جائے اور وہ آئندہ کسی کو بھی تکلیف نہ پہنچائے تو پھر اسے معاف کرنا اچھی بات  ہے۔” ختم شد
” شرح رياض الصالحين ” ( 3 / 525 )

سوم:

جب آپ کسی ایسے شخص کو معاف کرنا چاہتے ہیں  جس نے آپ پر ظلم کیا ہے  اور آپ اس سے انتقام لینے کی پوری صلاحیت بھی رکھتے ہیں ، اور آپ اس لیے معاف کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ اسے معاف کر دیں تو وہ سدھر جائے گا ، آپ کے معاف کرنے کی وجہ سے آپ پر یا لوگوں پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے؛ ایسے میں آپ کے دل میں یہ خیال آئے کہ اسے معاف کرنا مردانگی نہیں ہے، تو یہ خیال در حقیقت شیطان کی جانب سے ہے جو آپ کے معاف کرنے کو بزدلی ، پستی اور ذلت بنا کر دکھا رہا ہے، تو خیال رکھیں کہ یہ تصور صرف اس لیے ہے کہ شیطان آپ کو اجر و ثواب اور عزت سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان  ہے: (اور اللہ تعالی معاف کرنے کی وجہ سے بندے کی عزت میں ہی اضافہ فرماتا ہے)  اس کی روشنی میں اگر کوئی شخص آپ  کو مالی، جانی، بدنی، یا آپ کے گھر والوں کو نقصان پہنچاتا ہے  یا آپ کی کسی قسم کی حق تلفی کرتا ہے، تو انسانی نفس اسی بات پر مصر ہوتا ہے کہ اپنا بدلہ لے اور اپنا حق وصول کرے، یہ آپ کے لیے جائز ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ
ترجمہ: پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جیسے اس نے تمہارے اوپر کی ہے۔[ البقرة:194 ]
اور اسی طرح فرمایا:
وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ
ترجمہ: اور اگر تم عقوبت دو تو ایسی ہی دو جیسے تمہیں عقوبت دی گئی ہے۔[ النحل: 126]

اور یہ کوئی باعث ملامت بات بھی نہیں ہے، تاہم اگر مظلوم شخص معاف کرنا چاہتا ہے اور اپنے نفس کو معاف کرنے پر ابھار رہا ہے، لیکن اس کا نفس امارہ یہ کہتا ہے کہ: “اگر معاف کر دیا تو تمہاری ناک خاک میں مل جائے گی، یہ کوئی مردانگی نہیں ہے! تم کیسے اس شخص کو معاف کر سکتے ہو جس نے تم پر زیادتی کی ہے یا تمہیں مارا ہے؟” تو ایسی ہی صورت حال کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اور اللہ تعالی معاف کرنے کی وجہ سے بندے کی عزت میں ہی اضافہ فرماتا ہے) اب عزت ؛ ذلت کا متضاد ہے۔ تو نفس امارہ تمہیں جو کچھ کہہ رہا ہے کہ اگر تم مجرم کو معاف کر دو گے تو تم اس کے سامنے ذلیل ہو جاؤ گے، تو یہ نفس امارہ کا دھوکا ہے اور نفس امارہ کا کام ہی یہی ہے کہ وہ برائی کا حکم دیتا ہے اور اچھائی سے روکتا ہے، اللہ تعالی تو آپ کے معاف کرنے کی بنا پر عزت اور رفعت دنیا میں بھی دے گا اور آخرت میں بھی” ختم شد
” شرح رياض الصالحين ” ( 3 / 408 ، 409 )

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کے فرمان: (اور اللہ تعالی معاف کرنے کی وجہ سے بندے کی عزت میں ہی اضافہ فرماتا ہے) میں ایسی بد گمانیوں اور وسوسوں کا رد ہے  کہ معاف کرنا مردانگی نہیں، اور یہ ذلت کا باعث ہے، یا رعب اور دبدبے کے خلاف ہے ، انسانی رعب اسی وقت قائم ہوتا ہے جب انسان انتقام لے لے یا اپنا حق وصول کر لے۔

اس بارے میں  امام صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ: اللہ تعالی  معاف کرنے والے کے لیے دلوں میں عزت اور عظمت پیدا کر دیتا ہے؛ کیونکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ انتقام لینے سے رعب اور دبدبہ قائم ہوتا ہے، اس سے تحفظ ملتا ہے، دوسری جانب یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ معاف کرنے سے رعب اور دبدبہ  قائم نہیں رہتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلا دیا کہ اللہ تعالی معاف کرنے والے کی عزت میں مزید اضافہ فرما دیتا ہے۔”

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب