اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بيوى حق معاشرت ادا نہيں كرتى اور بيٹى سے دور ہو جانے كے خدشہ سے طلاق نہيں دينا چاہتا

174679

تاریخ اشاعت : 15-02-2012

مشاہدات : 4560

سوال

ميرى شادى كو سات برس بيت چكے ہيں اس دورا ميرى بيوى مجھ سے معاشرت ميں انكار كرتى رہى ہے، اور اس طرح ميں بيوى كو اچھے اور خوبصورت لباس زيب تن كرنے كا كہتا ليكن بہت ہى كم ايسا كرتى ہے، ميں شادى سے اكتا گيا ہوں، كئى برس قبل اس نے طلاق بھى مانگى تھى، ليكن اس وقت سے ميرى بيوى كے تعلقات ميں گرمجوشى آئى ہے.
اب ہمارى بچى دو برس كى ہے، اور بيوى كے تعلقات ميں گرمجوشى نہيں رہى، ميں نے بيوى كو بتايا كہ ميں شادى سے خوش نہيں ليكن اس كى حالت پھر بھى تبديل نہيں ہوئى، ميں اسے طلاق دينے كا سوچتا ہوں ليكن بچى آڑے آ جاتى ہے كہ طلاق كى صورت ميں بچى سے دور ہو جاؤنگا.
ميں بہت پريشان رہتا ہوں حتى كہ خود كشى كى سوچ بھى آئى ليكن ميرى بيوى كى حالت ويسى كى ويسى ہے، اگر طلاق واقع ہوگئى تو بچى سے دور ہو جانے كى بنا پر ميں اور زيادہ پريشان ہو جاؤنگا، ہم نے شادى كو بہتر بنانے اور اصلاح كى بہت كوشش كى اور مشورہ بھى كيا ليكن كوئى فائدہ نہيں ہوا، برائے مہربانى مجھے كوئى نصيحت فرمائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند اور بيوى كو حسن معاشرت اختيار كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:

اور ان عورتوں سے بہتر اور اچھے انداز كے ساتھ بود و باش اختيار كرو النساء ( 19 ).

اور ايك دوسرے مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان اس طرح ہے:

اور ان عورتوں كو بھى اسى طرح حق حاصل ہيں جس طرح ان كے اوپر ( خاوند كے ) حق ہيں اچھے طريقہ سے، اور مردوں كو ان عورتوں پر فضيلت حاصل ہے، اور اللہ تعالى غالب و حكمت والا ہے البقرۃ ( 228 ).

حسن سلوك اور حسن معاشرت ميں يہ بھى شامل ہے كہ خاوند اور بيوى دونوں ايك دوسرے كا خيال ركھيں، اور ايك دوسرے كے ليے خوبصورتى اختيار كرتے ہوئے خوبصورت لباس زيب تن كريں، اور عفت و عصمت اختيار كرتے ہوئے اپنى شرمگاہ كى حفاظت كى جائے.

اسى ليے بيوى كا اپنے خاوند سے انكار مجامعت بہت شديد حرام قرار ديا گيا ہے، جيسا كہ امام بخارى اور امام مسلم نے درج ذيل حديث روايت كى ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب مرد اپنى بيوى كو بستر پر بلائے اور بيوى انكار كر دے تو خاوند ناراض ہو كر رات بسر كرتا ہے تو فرشتے اس عورت پر صبح تك لعنت كرتے رہتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3237 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1436 ).

اور اگر بيوى بغير كسى شرعى عذر كے خاوند كا حق مجامعت و معاشرت ادا نہيں كرتى تو اسے نافرمان تصور كيا جائيگا اور اس كا نان و نفقہ اور لباس كا خرچ ساقط ہو جائيگا.

خاوند كو چاہيے كہ ايسى بيوى كو اللہ كا خوف دلائے اور اسے اس كے انجام اور سزا سے آگاہ كرے، اور اس سے بستر عليحدہ كر لے، اور اس كے باوجود وہ حق مجامعت ادا نہيں كرتى تو وہ اسے ہلكى سا مار كى سزا بھى دے سكتا ہے ليكن زخم وغيرہ نہ آئيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور جن عورتوں كى تمہيں بد دماغى اور نافرمانى كا ڈر ہو تو تم انہيں وعظ و نصيحت كرو، اور انہيں بستر سے عليحدہ كر دو، اور اور انہيں مار كى سزا دو، اگر تو تمہارى اطاعت كر ليں تو تم ان پر كوئى راہ تلاش مت كرو، يقينا اللہ تعالى بلند و بالا ہے النساء ( 34 ).

اور اگر يہ ذرائع اور وسائل كام نہ آ سكيں اور بيوى كى اصلاح نہ ہو تو پھر آپ اپنے خاندان سے ايك منصف شخص اختيار كريں، اور آپ كى بيوى بھى اپنے خاندان سے ايك منصف شخص اختيار كرے تاكہ وہ اس مشكل كو حل كر كے كوئى فيصلہ كريں.

جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تمہيں ان دونوں كے مابين اختلاف كا ڈر ہو تو پھر خاوند كے خاندان سے ايك منصف شخص اور بيوى كے خاندان سے ايك منصف شخص اختيار كرو، اگر وہ دونوں اصلاح كا ارادہ ركھتے ہوں گے تو اللہ تعالى ان كے مابين توفيق پيدا كر ديگا، يقينا اللہ تعالى علم والا خبردار ہے النساء ( 35 ).

اگر آپ سمجھيں كہ اسے طلاق كى دھمكى سيدھا كر ديگى اور دھمكى سے ہى اس كى اصلاح ہو جائيگى تو پھر ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ اگر آپ كا ظن غالب يہ كہتا ہو كہ اسے طلاق دينا اس كى اصلاح كر ديگا اور اسے سيدھى راہ پر لے آئيگا تو آپ اسے ايك طلاق دے كر كچھ مدت كے ليے چھوڑ ديں اور پھر عدت ختم ہونے سے قبل اس سے رجوع كر ليں.

اور اگر اسے بھى اپنے نكاح ميں ركھتے ہوئے آپ كے ليے دوسرى شادى كرنا ممكن ہو تو آپ كے ليے اسے طلاق دے كر بچى كو ضائع ہونے سے دوسرى شادى كرنا بہتر ہے.

اور آپ كو چاہيے كہ آپ اپنى بيوى كے ساتھ اپنى سيرت كو ديكھيں اور سوچيں كہ كہيں آپ اس كے ساتھ كوتاہى كا مرتكب تو نہيں ہو رہے، يا پھر كہيں آپ كوئى ايسا كام تو نہيں كر رہے جس سے آپ كى بيوى كو تكليف ہوتى ہو اور اس طرح وہ آپ سے نفرت كرنے لگى ہے.

عقل مند وہى ہے جو اپنا محاسبہ كر كے اپنى غلطيوں كى اصلاح كر ليتا ہے، اور پھر كچھ مشكلات تو ايسى ہوتى ہيں جو اسى صورت ميں حل ہو سكتى ہيں جب ان كا سبب معلوم ہو جائے اور صراحت سے بيان كر دى جائيں.

دوم:

مومن شخص كو صبر و تحمل اور قوت و عزم سے مزين ہونا چاہيے، اسے مصائب اور پريشانيوں كے آنے پر كمزور نہيں بن جانا چاہيے، بلكہ وہ ڈٹ كر ان كا مقابلہ كرے اور انہيں حل كرنے كى كوشش كرے، اور كثرت سے اطاعت كے ايسے اعمال كرے جو اس كے ايمان كو قوت بخشيں، اور ثابت قدمى ميں اس كے ممد و معاون ثابت ہوں.

جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو صبر اور نماز كے ساتھ مدد حاصل كرو يقينا اللہ تعالى صبر كرنے والوں كے ساتھ ہے البقرۃ ( 153 ).

يہ ياد ركھيں كہ خودكشى كبيرہ گناہ اور حرام ہے، خودكشى كرنے والے شخص كو تو ابدى جہنم كى سزا كى وعيد سنائى گئى ہے ـ اگر انسان دنياوى تنگى سے چھٹكارا حاصل كر بھى لے ـ تو آخرت كے عذاب سے دوچار ہو جائيگا.

پھر يہ خود كشى اس كے گھر والوں اور رشتہ داروں كے ليے اكتاہٹ و تكليف كا باعث بنےگى، آپ ذرا اپنى اس بچى كى حالت پر غور كريں جس كى بنا پر آپ اتنے پريشان ہو رہے ہيں، كہ اگر آپ نے خود كشى كر لى تو اس بچى كى مستقبل ميں كيا حالت ہوگى، اور اس كا انجام كيا ہوگا؟؟!!

ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كو اس مصيبت سے چھٹكارا دلائے اور آپ كے ليے اس سے نكلنے كى كوئى راہ بنائے.

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 111938 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب