جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

جرمن عدالت سے طلاق اور حق پرورش حاصل كر ليا تو كيا يہ جائز ہے ؟

174778

تاریخ اشاعت : 11-03-2013

مشاہدات : 3367

سوال

ميرى ايك تركش سہيلى كى اپنے خاوند كے ساتھ بہت مشكلات رہيں اور اس نے اكٹھے رہنے كے ليے بہت كچھ كيا ليكن بالآخر اس سے طلاق لينے ميں ہى بہترى محسوس كى اور جرمن عدالت كے ذريعہ طلاق حاصل كى جرمن عدالت ميں شريعت كے مطابق فيصلے نہيں كيے جاتے، اس كا ايك بچہ بھى ہے بچے كے حقوق كے ليے بھى اس نے جرمن عدالت سے معاونت حاصل كى.
خاوند اب بچے كو مخصوص اوقات ميں ہى ديكھ اور مل سكتا ہے، پھر اسے ماں كے سپرد كرنا ہوگا، برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ اس ميں شرعى حكم كيا ہوگا، كيا اس كے ليے اس طريقہ سے طلاق حاصل كرنا جائز ہے ؟
اور بيٹے كے بارہ ميں كيا ہے، جب ميں نے اسے بتايا كہ اسلام ميں تو يہ ہے كہ بيٹا اپنے باپ كے ساتھ ہوگا، تو اس نے جواب ديا كہ باپ اس كا اہل نہيں كہ وہ اسے اسلامى طريقہ كے مطابق تعليم دے سكے، مجھے يہ بتائيں كہ ميں اس عورت كو كيا بتاؤں، برائے مہربانى ميرے سوال كا جواب ديں تا كہ ميں اس عورت كو نصيحت كر سكوں اور اسے كچھ بتا سكوں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

كسى بھى عورت كے ليے بغير كسى ايسے عذر كے طلاق طلب كرنا جائز نہيں جو اس كے ليے طلاق كو مباح كرتا مثلا سوء مباشرت؛ كيونكہ ابو داود اور ترمذى اور ابن ماجہ ميں ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى بغير كسى سبب كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے اگر كوئى عذر پايا جاتا ہو تو خاوند سے طلاق طلب كرنا جائز ہے، اور اگر خاوند طلاق دينے سے انكار كرتا ہے تو عورت اپنا مقدمہ شرعى قاضى كے پاس پيش كرے، اور اگر شرعى قاضى نہيں تو يہ معاملہ اسے اپنے ملك اور علاقے كے اسلامك سينٹر ميں پيش كرنا چاہيے.

دوم:

جب خاوند كے ذريعہ يا پھر اسلامك سينٹر كے ذريعہ اسے طلاق ہو جائے تو اس كى ان عدالتوں سے توثيق اور تصديق كروانا جائز ہے جو شريعت اسلامى كے مطابق فيصلہ نہيں كرتيں.

ليكن اگر خاوند طلاق دينے سے انكار كر دے اور علاقائى غير اسلامى عدالت اسے طلاق دے دے تو يہ طلاق واقع نہيں ہوگى؛ كيونكہ كافر جج كى دى گئى طلاق واقع نہيں ہوتى.

فقھاء كرام اس پر متفق ہيں كہ مسلمانوں كے مابين فيصلہ كرنے والے قاضى اور جج كا مسلمان ہونا شرط ہے؛ كيونكہ قضاء ايك قسم كى ولايۃ ہے اور كوئى بھى كافر شخص كسى مسلمان كا ولى نہيں بن سكتا.

سوال نمبر ( 127179 ) كے جواب ميں اس كى تفصيل بيان ہو چكى ہے، اس ميں ہم نے بيان كيا ہے كہ اگر عورت كو كسى كافر عدالت سے طلاق حاصل ہو جائے ( يعنى خاوند خود اسے طلاق نہيں ديتا ) تو اس عورت كو اسلامك سينٹر كا رخ كر كے اس معاملہ كو علماء كے سامنے ركھنا چاہيے تا كہ وہ شرعى اعتبار سے اس كو مكمل كريں.

سوم:

جب شرعى طور پر عورت كو طلاق ہو جائے تو اس صورت ميں سات برس كى عمر تك بچے ماں كى پرورش ميں رہيں گے؛ جب تك شادى نہ كر لے، اگر وہ شادى كر لے تو پھر اسے پرورش كا حق نہيں؛ كيونكہ عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ ايك عورت نے آ كر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرا پيٹ ميرے اس بيٹے كے ليے برتن تھا، اور ميرى چھاتى اس كا مشكيزہ، اور ميرى گود اس كے جائے امن تھى، اور اس كے باپ نے مجھے طلاق دے دى اور اب مجھ سے اسے بھى ہتھيانا چاہتا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:

" جب تك تم نكاح نہيں كر ليتى تم اس كى زيادہ حقدار ہو "

مسند احمد حديث نمبر ( 6707 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2276 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

جب بچہ سات برس كا ہو جائے تو اسے والدين ميں سے كسى ايك كو اختيار كرنے كا كہا جائيگا، وہ جسے اختيار كرے اس كے ساتھ جائيگا، ليكن اگر بچى ہو تو اس كے بارہ ميں علماء كرام كا اختلاف ہے:

امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اسے بھى اختيار حاصل ہوگا.

اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

بالغ ہونے يا شادى تك اس كى ماں زيادہ حقدار ہے.

امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:

شادى يا رخصتى ہونے تك ماں زيادہ حقدار ہے.

اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" باپ زيادہ حقدار ہے؛ كيونكہ اس كى حفاظت كے ليے باپ زيادہ اولى و بہتر ہے "

مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 17 / 314 ) كا مطالعہ ضرور كريں.

يہ تو اس صورت ميں ہے جب خاوند اور بيوى دونوں ہى پرورش كے اہل ہوں، ليكن اگر ان ميں كوئى ايك بھى بچے كى پرورش كرنے كا اہل نہيں مثلا فاسق و فاجر ہے تو حق پرورش دوسرے كا ہوگا.

آپ كو چاہيے كہ اپنے ملك ميں قابل اعتماد شرعى ادارے كے ذمہ داران كے سامنے اپنا مسئلہ پيش كريں تا كہ وہ آپ كے خاوند كى حالت پر غور كرے، اور بچے كى عمر ديكھ كر فيصلہ كرے كہ اس كى پرورش كا حقدار كون ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب