جمعرات 7 ربیع الثانی 1446 - 10 اکتوبر 2024
اردو

پہلے خاوند كى اولاد پاس ہونے كى بنا پر خاوند اپنى بيوى كے اخراجات برداشت نہيں كرتا

174801

تاریخ اشاعت : 24-12-2011

مشاہدات : 3948

سوال

ميں نے تقريبا ڈيڑھ برس قبل اسلام قبول كيا اور الحمد للہ بعد ميں شادى بھى كر لى، ليكن موجودہ خاوند كے بارہ ميں مجھے چند ايك مشكلات ہيں: ميں سولہ برس سے شادى شدہ ہوں اور ميرے پہلے خاوند سے ميرے دو بچے بھى ہيں، موجودہ خاوند كہتا كہ وہ ميرے بچوں كا ذمہ دار نہيں، ميں نے كبھى اس سے يہ مطالبہ نہيں كيا كہ وہ ان كے باپ كا بدل بنے، ليكن صرف اتنا ہے كہ وہ ان بچوں كے ساتھ نرمى كا برتاؤ تو كرے.
وہ ان كے ساتھ بالكل نرمى نہي كرتا اور يہ محسوس كرتا ہے كہ اس پر اصلا اس سلسلہ ميں كچھ بھى واجب نہيں، بلكہ اس سلسلہ ميں سارى ذمہ دارى مجھ پر ہى ڈالتا ہے، ميں جانتى ہوں كہ اس كے ليے ميرے اخراجات واجب ہيں، ليكن وہ اس ذمہ دارى كو ادا نہيں كرتا، بلكہ اس كا خيال ہے كہ اگر وہ مجھ پر خرچ كريگا تو يہ ميرى اولاد پر ہى خرچ ہے، اس ليے وہ خرچ نہيں كرتا، مجھى سمجھ نہيں آ رہى كہ ميں اس مشكل كو كس طرح حل كروں، آيا وہ حق پر ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ سبحانہ و تعالى كا شكر ہے جس نے آپ كو دين اسلام قبول كرنے كى توفيق نصيب فرمائى، اور دين اسلام كے ليے آپ كا سينہ كھولا، ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ اور آپ كى اولاد كى حفاظت فرمائے، اور آپ كا ايمان زيادہ كرے اور آپ كى ہدايت و توفيق ميں زيادتى فرمائے.

دوم:

خاوند اپنى بيوى كى پہلى اولاد كى تعلم و تربيت اور ديكھ بھال كا ذمہ دار تو نہيں، ليكن اگر وہ بيوى كے ساتھ حسن سلوك اور احسان كرتے ہوئے ايسا كرتا ہے تو اسے اجروثواب حاصل ہوگا، اور اس كے ساتھ ساتھ مسلمان اولاد پر بھى احسان ہوگا جو ديكھ بھال اور تربيت كى بہت زيادہ محتاج ہے.

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 129377 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

سوم:

خاوند پر اپنى بيوى كا اچھے طريقہ سے خرچ اور اس كے باقى اخراجات مثلا نان و نفقہ اور رہائش و لباس اور علاج معالجہ وغيرہ واجب ہے، خاوند كے ليے اس ميں كوتاہى كرنا جائز نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

مرد عورتوں پر نگراني و حاكم ہيں اس ليے كہ اللہ تعالى نے بعض كو بعض پر فضيلت دى ہے اور اس ليے كہ ان مردوں نے اپنا مال خرچ كيا ہے النساء ( 34 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان اس طرح ہے:

چاہيے كہ صاحب وسعت اپنى وسعت كے مطابق خرچ كرے، اور جس پر اس كا رزق تنگ كر ديا جائے تو اللہ كى جانب سے ديے گئے رزق ميں سے خرچ كرنا چاہيے، اللہ تعالى كسى بھى نفس كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا الطلاق ( 7 ).

اور حديث ميں بھى اس كى تاكيد كى گئى ہے، معاويہ القشيرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كسى ايك پر اس كى بيوى كا كيا حق ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم كھاؤ تو بيوى كو بھى كھلاؤ، اور جب تم لباس پہنو تو اسے بھى پہناؤ، اور چہرے پر مت مارو، اور اسے قبيح و بدصورت مت كہو، اور اپنے گھر كے علاوہ اس سے بائيكاٹ مت كرو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2142 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1850 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ابن رشد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" فقھاء اس پر متفق ہيں كہ بيوى كے خاوند پر حقوق ميں بيوى كا نان و نفقہ اور لباس بھى شامل ہے؛ كيونكہ اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

اور جس كا بچہ ہو اس كے ذمہ ان ( عورتوں ) كا نان و نفقہ اور لباس اچھے طريقہ پر ہے .

اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم پر ان عورتوں كا نان و نفقہ اور لباس اچھے طريقہ سے ہے "

اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہند رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا تھا:

" اتنا كچھ لے ليا كرو جو تمہيں اور تمہارے بچے كو كافى ہو "

نان و نفقہ كے وجوب پر سب فقھاء كا اتفاق ہے " انتہى

ديكھيں: بدايۃ المجتھد و نھايۃ المقتصد ( 2 / 44 ).

بيوى كے پہلے خاوند سے بچے ہونے كى بنا پر موجودہ خاوندج كو بيوى كے خرچ ميں كمى كرنے كا حق نہيں، بلكہ اگر وہ بچے اپنى ماں كے ساتھ گھر ميں رہتے ہيں اور كھانے ميں شريك ہيں اور خاوند ان كو كھانا وغيرہ دينے پر راضى نہيں تو بيوى اپنى جانب سے بچوں كے كھانے پينے كا خرچ خاوند كو ادا كر دے، اور اسے گھر كے اخراجات ميں لگا دے اور اسى طرح ماں اپنے پہلے بچوں كے علاج معالجہ اور لباس كا بھى خرچ برداشت كرے، ليكن خاوند اپنى بيوى كى سارى ضروريات پورى كريگا.

اور اگر خاوند بيوى كے بچوں كو اپنے ساتھ نہيں رہنے ديتا، اور رہائش كے اخراجات طلب كرتا ہے تو اسے مطالبہ كا حق ہے، مثلا گھر ميں ان كے ليے ايك كمرہ مخصوص كر دے اور وہ بچے اس كمرہ كا كرايہ ادا كر ديا كريں.

حاصل يہ ہوا كہ آپ كا خرچ تو آپ كے خاوند كے ذمہ لازم ہے، اور آپ كے پہلے خاوند كے بچے اگر آپ كے ساتھ كھانے پينے اور رہائش ميں شريك ہوتے ہيں اور آپ كا خاوند ان كے اخراجات برداشت كرنے سے انكار كر ديتا ہے تو آپ كو ان كے اخراجات ادا كرنا ہونگے.

ليكن اس كے ليے آپ دونوں افہام و تفہيم كى فضا ميں بات چيت كريں اور محبت و الفت كے ساتھ آپس ميں سمجھوتہ كر ليں اور اللہ تعالى نے حسن سلوك كا حكم ديا ہے اس كو مد نظر ركھتے ہوئے اس مسئلہ كو حل كرنے كى كوشش كريں.

اس بات كا ادراك ہونا چاہيے كہ انسان جو كچھ خرچ كرتا ہے اللہ اسے اس كا اجروثواب ضرور دےگا وہ ضائع نہيں ہوتا، بلكہ ايك نيكى تو دس نيكيوں كے برابر ہو جاتى ہے، اور پھر اللہ جسے چاہے اس سے بھى زيادہ ثواب عطا كرتا ہے.

يہ ياد ركھيں كہ ہر جاندار پر خرچ كرنا اجروثواب كا باعث ہے اور پھر اگر چھوٹے بچے ہوں تو ان كے اخراجات اور ضروريات پورى كرنے كا ثواب كتنا ہوگا ؟

ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ دونوں كى اصلاح فرمائے اور آپ كے حالات كو سدھارے، اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب