الحمد للہ.
محترمہ بہن! ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کس قسم کی مزید آزادی کا مطالبہ اپنے والدین سے کر رہی ہیں ، اور آپ کے ہاں آزادی کا کیا مطلب ہے؟ کیونکہ اس وقت آزادی کا مفہوم اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ لفظ آزادی کا اطلاق ہی دھندلا چکا ہے۔
بہ ہر حال -اللہ تعالی آپ کو برکتوں سے نوازے-آپ یہ بات سمجھ لیں کہ آزادی بھی اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود کے اندر ہونی چاہیے ، لہذا ایسی کوئی آزادی نہیں ہے جو اللہ تعالی کی شریعت سے متصادم ہو، اور نہ ہی آپ کا یہ حق بنتا ہے کہ آپ والدین سے ایسی آزادی کا مطالبہ کریں، بلکہ والدین کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ آپ کو با ادب بنائیں، اللہ کی شریعت پر پابندی سے چلنے والی بنائیں، آپ کو حدود اللہ کا خیال کرنے والی بنائیں۔
نیز والدین سے اس چیز کا بھی شریعت میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آپ کا خیال رکھیں، آپ کی اچھے اخلاق اور نیک اعمال پر تربیت کریں؛ تو اس میں یہ تمام چیزیں شامل ہیں کہ: آپ کے عقائد اور نظریات صحیح ہوں، آپ کو باطل اور گھٹیا قسم کے نظریات سے بچائیں، اس میں آپ کی عبادات بھی شامل ہیں، فرائض کی ادائیگی ، اور حرام کاموں سے اجتناب بھی شامل ہے۔
اسی طرح اس میں اخلاقیات، لباس، چال چلن ، دوستوں اور مجالس کا چناؤ جیسے امور بھی عمومی آداب میں شامل ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اپنے ما تحتوں کے متعلق پوچھا جائے گا، چنانچہ حکمران ذمہ دار ہے اور اس سے اپنی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا، مرد اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار ہے، اور اس سے ان کے بارے میں باز پرس ہوگی، عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے، اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، خادم اپنے مالک کے مال کا ذمہ دار ہے، اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا) راوی کہتے ہیں کہ: مجھے لگتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ: (آدمی اپنے والد کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے متعلق باز پرس ہو گی، اور تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا) بخاری ، مسلم
ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ جس معاشرے میں آپ رہ رہی ہیں وہاں یہ مشکل کام ہے، اس معاشرے میں ہر فرد کو مطلقاً آزادی ہے، وہاں کسی پر کسی بھی کام کے متعلق کوئی پابندی نہیں ہے؛ لیکن واضح رہے کہ اللہ کی رضا ، اور اللہ کے احکامات پر ثابت قدمی ہر مسلمان پر ہر حالت میں ضروری اور واجب ہے، مسلمان چستی میں ہو یا سستی میں ، آسانی میں ہو یا تنگی میں، کوئی چیز طبیعت کے مطابق ہو یا طبیعت سے متصادم ہر حالت میں اللہ تعالی کے احکامات پر ثابت قدمی ضروری امر ہے۔
اس لیے آپ بھر پور کوشش کریں کہ جس قدر ممکن ہو سکے شرعی حدود سے تجاوز نہ کریں ، اس پر آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے اجر عظیم بھی ملے گا، آپ حتی الامکان ثابت قدمی سے کام لیں؛ کیونکہ اللہ تعالی کی اطاعت گزاری کے بعد جس قدر آپ کو لذت محسوس ہو گی اس سے اٹھائی گئی مشقت اور تکلیف ان شاء اللہ بھول جائے گی۔
یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ -اللہ تعالی آپ کو توفیق سے نوازے- آپ کے والدین سے روزِ قیامت آپ کے بارے میں پوچھا جائے گا، نیز آپ کے والدین کے آپ پر ڈھیروں حقوق ہیں، ان میں سے اہم ترین یہ ہے کہ: والدین کی اچھے کاموں میں اطاعت کی جائے، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں، جہاں تک شرعی حدود کے اندر اندر آپ کو حکم دیں ان کی خلاف ورزی نہ کریں۔
باقی رہا یہ معاملہ کہ آپ اپنے والدین کو کس طرح بتلائیں کہ آپ کو شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے مزید آزادی چاہیے؛ تو یہ واضح دلائل اور مثبت گفتگو ، نرم انداز سے ممکن ہے، نیز آپ اپنے ایسے واقعات بھی ان کے سامنے رکھیں جن میں آپ کا موقف صحیح اور درست تھا، نیز عملی اور حقیقی معنوں میں آپ اسے ثابت بھی کر کے دکھائیں۔
ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے، آپ کے لیے اور آپ کے والدین کے لیے دعا گو ہیں کہ ہمیں بھلائی والا راستہ دکھائے۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (5053) اور (93519) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
واللہ اعلم