الحمد للہ.
جو شخص طواف کے ساتوں چکر حجر اسود سے شروع کر کے حجر اسود پر ہی مکمل کرے تو اس کا طواف صحیح ہے، لیکن اگر اس سے ایک قدم بھی کم ہوا تو اس کا طواف صحیح نہیں ہو گا۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر طواف کے ساتوں چکروں میں کمی رہی تو طواف صحیح نہیں ہو گا، چاہے کمی معمولی ہو
یا غیر معمولی، چاہے طواف کرنے والا مکہ میں موجود ہو یا اپنے وطن واپس چلا گیا ہو،
نیز یہ کمی دم دینے سے پوری نہیں ہو گی، ہمارا یہی موقف ہے، اور جمہور علمائے کرام
بھی اسی کے قائل ہیں" انتہی
"شرح المهذب"(8/29)
حجاوی رحمہ اللہ "زاد المستقنع" میں کہتے ہیں:
"جو شخص طواف کا معمولی حصہ بھی چھوڑ دے تو اس کا طواف صحیح نہیں ہو گا"
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: "[حجاوی رحمہ اللہ کے عربی
الفاظ میں] "شيئا"
کا لفظ نکرہ ہے اور شرط کے سیاق میں استعمال ہوا ہے جو کہ عموم کا معنی دیتا ہے،
لہذا اس میں ایک قدم ، یا ایک بالشت کی کمی بھی شامل ہو گی، چنانچہ اتنی سی کمی کی
صورت میں بھی طواف صحیح نہیں ہو گا" انتہی
"الشرح الممتع"(7/249)
دوم:
طواف کے صحیح ہونے کیلیے یہ شرط نہیں ہے کہ طواف کرنے والا ابتدا یا انتہائے طواف کے وقت حجر اسود کے سامنے کھینچی گئی لائن پر کھڑا ہو، بلکہ اتنا کافی ہے کہ حجر اسود کے سامنے آ کر طواف شروع کر دے تو اس کا طواف صحیح ہو گا۔
حجاوی رحمہ اللہ "زاد المستقنع" میں کہتے ہیں:
"[طواف شروع کرتے ہوئے]اپنے پورے جسم کے ساتھ حجر اسود کے بالکل سامنے آ جائے"
اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اتنی دقیق حد بندی کے متعلق دل مطمئن نہیں ہے؛ کیونکہ صحابہ کرام کا ظاہری عمل
یہی ہے کہ جب وہ حجر کے اسود کے سامنے آتے تھے چاہے مکمل جسم کے ساتھ یا جسم کی
دائیں، بائیں حجر اسود کے سامنے آتی تھی تو وہ طواف شروع کر لیتے تھے، یعنی صحابہ
کرام کے ہاں یہ معاملہ اتنا پیچیدہ نہیں تھا، تاہم فقہائے کرام کی گفتگو کے مطابق
مکمل جسم کا حجر اسود کے سامنے آنا لازمی امر ہے، اس پر یہ ابہام وارد ہوتا ہے کہ
ماضی میں اتنی دقیق حد بندی کیسے ممکن تھی؟۔۔۔ مؤلف کی گفتگو کے مطابق پورے جسم کو
حجر اسود کے سامنے لانا ضروری ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ایسا کرنا ضروری نہیں ہے،
چنانچہ اگر جسم کا کچھ حصہ بھی حجر اسود کے سامنے آ جائے تو یہ بھی کافی ہے، شیخ
الاسلام ابن تیمیہ نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے، لہذا پورے بدن کو حجر اسود کے
سامنے لانے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ اگر ایسا کرنا ممکن ہو تو بہر صورت افضل ہے"
انتہی
"الشرح الممتع"
اس بنا پر : اگر معاملہ ایسے ہی جیسے کہ آپ نے ذکر کیا ہے کہ آپ نے بھر پور کوشش کر کے حجر اسود کی سمت کا تعین کیا تو ایسی صورت میں آپ پر کچھ بھی لازم نہیں آتا؛ کیونکہ آپ نے حجر اسود سے لیکر حجر اسود تک سات چکر مکمل کیے ہیں، چاہے اگر ان چکروں میں سے کسی ایک چکر کی ابتدا یا انتہا میں معمولی خلل بھی آ گیا ہو؛ کیونکہ آپ نے اپنے غالب گمان کے مطابق حجر اسود کے سامنے سے طواف شروع کیا ہے اور غالب گمان کے مطابق ہی طواف مکمل کیا۔
سوم:
آپ نے کہا کہ: "آپ کے ساتھ محرم نے آپ کے بال کاٹے" تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ طواف اور سعی سے فراغت کے بعد واجب یہی ہے کہ بال کاٹے جائیں تو کوئی بھی شخص بال کاٹ دے تو یہ عمل صحیح ہو گا، چاہے آپ کے محرم نے حج یا عمرے کا احرام بھی باندھ رکھا ہو۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی خاتون یا مرد اپنے بال خود کاٹے یا کوئی احرام یا بغیر احرام والا کاٹے
بہر صورت جائز ہے۔" انتہی
"مجموع الفتاوى"(22/483)
واللہ اعلم.