سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کسی خیراتی ادارے کو زکاۃ دے سکتے ہیں جو زکاۃ کے پیسے سے قربانی کیلئے جانور خریدتی ہے؟

191350

تاریخ اشاعت : 21-04-2016

مشاہدات : 4852

سوال

سوال: کیا میں اپنی زکاۃ کسی ایسے خیراتی ادارے کو دے سکتا ہوں جو گائے خرید کر عید کے دن قربانی کرتی ہے، اور پھر اس کا گوشت فقراء و مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

وقت پر زکاۃ ادا کرنا واجب ہے، چنانچہ وقت سے زکاۃ مؤخر کرنا جائز نہیں ہے، البتہ کسی مثبت مصلحت  کے تحت تھوڑی سی مدت کیلئے تاخیر ممکن ہے۔
اس کی تفصیل کیلئے آپ سوال نمبر: (45185) کا مطالعہ کریں۔

دوم:

قابل اعتماد اور امانت دار خیراتی اداروں کو زکاۃ  دینا جائز ہے، بشرطیکہ وہ شرعی طریقے کے مطابق زکاۃ کے مستحقین میں اسے تقسیم کریں ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ہمارے علاقے میں ایک خیراتی ادارے کی برانچ ہے، تو کیا میں انہیں اپنی زکاۃ میں سے کچھ دے سکتا ہوں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر اس خیراتی ادارے کے لوگ دینی اور علمی اعتبار سے معتمد اور معتبر ہیں  تو انہیں زکاۃ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن آپ انہیں یہ بتلائیں گے کہ یہ زکاۃ ہے، تا کہ اسے عام صدقات  کے مصارف میں تقسیم نہ کیا جائے۔
اور اگر آپکو ان کے بارے میں علمی و دینی حالت کے بارے میں علم نہیں ہے ، تو بہتر یہی ہے کہ آپ خود مساکین کو زکاۃ پہنچائیں؛ بلکہ افضل یہ ہے کہ ہمیشہ آپ خود ہی زکاۃ  لوگوں میں تقسیم کریں؛ کیونکہ انسان  اپنی زکاۃ خود نکالے تو اسے اطمینان رہتا ہے کہ میری زکاۃ مستحق لوگوں تک پہنچ چکی ہے، چنانچہ اسے اس عمل کا بھی اجر ملے گا کہ اس نے مستحق لوگوں کو تلاش کر کے زکاۃ ان تک پہنچائی ہے، لہذا کسی کو ذمہ داری دینے سے بہتر ہے کہ آپ خود ہی زکاۃ مستحق لوگوں تک پہنچائیں" انتہی بتصرف
" فتاوى نور على الدرب " (7/408)

سوم:

کسی بھی خیراتی ادارے کو عید کے دن قربانیاں کرنے کیلئے زکاۃ دینا درست نہیں ہے، کیونکہ اصولی طور پر زکاۃ اسی مال سے دی جاتی ہے جس میں زکاۃ واجب ہوئی ہے، یعنی نقدی رقم کی زکاۃ نقدی دی جائے گی، اور فصلوں کی زکاۃ فصلوں کی شکل میں دی جائے گی۔

لہذا فقراء و  مساکین کو زکاۃ کا مال دیا جائے گا، اور وہ خود اپنی ضروریات کی اشیا خرید لیں گے، کیونکہ زکاۃ وصول کرنے کے بعد زکاۃ کا مال ان کی ملکیت میں آجاتا ہے، اور کسی کے مال میں بغیر اجازت کے ہیر پھیر کرنا جائز نہیں ہوتا۔

چنانچہ نقدی کی زکاۃ  نقدی کی شکل میں ہوگی، نقدی کی جگہ راشن یا گوشت وغیرہ کی شکل میں ادا کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ غریب شخص کو اپنی ضروریات  کا زیادہ علم ہے، اور نقدی دینے کی صورت میں اس کیلئے آسانی بھی ہے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ غریب آدمی پر قرضہ ہو اور رقم ملنے پر وہ قرضہ ادا کر دے، یا کوئی ایسی ضرورت ہو جو صرف رقم سے ہی حل ہو سکتی ہو، تو اسے نقدی دینا ہی بہتر ہوگا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا:
"کیا زکاۃ کی رقم کو راشن وغیرہ کی شکل میں فقراء کو دینا  جائز ہے؟ "
تو انہوں نے جواب دیا:
"ایسا کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے زکاۃ اس صورت میں نقدی کی شکل میں ہی دی جائے گی" انتہی
" اللقاء الشهري " (41/12)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات