جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

روزہ رکھنے کے بعد چھوڑنے کیلئے متردد ہے، یا روزہ نہ رکھنے کی تمنا کرتا ہے تو کیا اسکا روزہ فاسد ہوجائے گا؟

سوال

میں نے رمضان میں روزہ رکھا، اور دن کے وقت میری حالت خوب پتلی ہوگئی، پھر مجھے تردد ہونے لگا کہ روزہ چھوڑ دوں یا مکمل کروں؟ لیکن پھر بھی میں نے روزہ مکمل کر لیا، تو سوال یہ ہے کہ کیا روزے کے بارے میں تردد کرنے سے کوئی فرق تو نہیں پڑے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جو شخص روزے کی حالت میں روزہ چھوڑنے کی نیت کرلے تو اسکا روزہ ختم ہوجاتا ہے، بشرطیکہ روزہ چھوڑنے کا پختہ ارادہ ہو، متردد نہ ہو، چنانچہ ایسی صورت حال میں روزہ چھوڑنے کی وجہ سے اس دن کی قضا دینی ہوگی، اس سوال کا جواب سوال نمبر: (95766) میں گزر چکا ہے۔

جبکہ روزہ چھوڑنے کے بارے میں متردد شخص کے حکم میں اختلاف ہے، کہ آیا اسکا بھی روزہ ختم ہوگیا یا نہیں؟

چانچہ مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"[حنبلی] مذہب میں ہے کہ: اگر [کوئی شخص ]روزہ ترک کرنے میں متردد ہو، یا صرف نیت ہی کرلے کہ وہ فلاں وقت روزہ توڑ دے گا، یا یہ کہے کہ: اگر مجھے کھانے کی کوئی چیز ملی تو کھا لونگا ورنہ اپنا روزہ مکمل کرونگا، تو اس کے بارے میں ایسے ہی اختلاف ہے جیسے نماز کے مسئلہ میں ہے۔

کچھ کا کہنا ہے کہ روزہ باطل ہوجائے گا، کیونکہ اس نے پختہ نیت و عزم نہیں کیا، جیسے کہ اثرم کہتے ہیں کہ : اس وقت تک واجب ادا نہیں ہوگا جب تک پورے دن کا روزہ رکھنے کی نیت نہ ہو۔

میں [مرداوی]کہتا ہوں: یہ ہی درست ہے۔

[اس بارے میں ]یہ بھی کہا گیا ہے کہ: روزہ باطل نہیں ہوگا، کیونکہ اس نے روزہ توڑنے کی پختہ نیت نہیں کی، اور نیت معلق ہو تو قابل اعتبار نہیں ہوتی، جبکہ [صاحب کتاب] "الفروع"اور زرکشی نے ان دونوں کو مطلق بیان کیا ہے"انتہی

"الإنصاف" (3/297)

جبکہ حنفی اور شافعی فقہائے کرام روزے کی نیت میں تردد کی وجہ سے روزہ باطل قرار دینے کے قائل نہیں ہیں، دیکھیں: " بدائع الصنائع " از : کاسانی(2/92)

نووی کہتے ہیں کہ:

"اگر روزہ دار روزہ رکھنے یا چھوڑنے کے بارے میں متردد نیت رکھتا ہو، تو [شافعی] مذہب کے مطابق روزہ باطل نہیں ہوگا، اکثر علمائے کرام نے اسی کو قطعی [فیصلہ] قرار دیا ہے"انتہی

"المجموع شرح المهذب" (6/297)

یہی رائے [حق کے ]قریب ترین ہے؛ کیونکہ اصل یہ ہے کہ وہ روزے دار ہے، جبکہ روزہ ترک کرنے کیلئے تردد روزے کی نیت کے اسوقت تک منافی نہیں ہےجب تک روزہ توڑنے کا پختہ عزم اور ارادہ نہ کر لے، اسی قول کے مطابق شیخ ابن عثیمین اور شیخ ابن جبرین رحمہما اللہ تعالی نے فتوی دیا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر روزہ توڑنے کا پختہ ارادہ نہ ہو لیکن متردد ہو، تو اس بارے میں علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں:

کچھ کہتے ہیں کہ: ایسے شخص کا روزہ ٹوٹ جائے گا، کیونکہ روزہ جاری رکھنے کیلئے تردد کرنا، پختہ عزم کے منافی ہے۔

جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ: روزہ باقی رہے گا؛ کیونکہ نیت توڑنے کا پختہ عزم نہ ہونے تک نیت قائم رہنا اصل ہے، میرے نزدیک قوی دلائل کی بنا پر یہی موقف راجح ہے۔ واللہ اعلم"انتہی

"مجموع الفتاوى"(19/188)

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

"اگر انسان نے روزہ رکھا ہوا ہو، بعد میں روزہ توڑنے کے بارے میں تردد [دل میں] پایا جائے، تو کیا اسکا روزہ ٹوٹ جائے گا؟

تو انہوں نے جواب دیا: کچھ علمائے کرام نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر کسی نے روزہ توڑنے کا عزم کر لیا تو بغیر کھائے پئے بھی اسکا روزہ ٹوٹ جائے گا، چنانچہ اگر کسی انسان نے سفر میں روزہ توڑنے کا عزم کر لیا ، لیکن پانی یا کھانا نہ ملنے کی وجہ سے اس نے اپنا روزہ مکمل کیا تو ہم اسے کہیں گے: روزہ توڑنے کے عزم کی بنا پر اسکا روزہ ٹوٹ چکا ہے۔

جبکہ تردد کی شکل میں اصل یہی ہے کہ روزہ باقی رہےگا، یہاں روزہ توڑنے کا عزم نہیں ہے، بلکہ تردد ہے، کہ کیا میں روزہ مکمل کروں یا توڑ دوں؟ چنانچہ اصل یہ ہے کہ نیت باقی رہے گی، اس لئے -ان شاء اللہ -دل میں تردد کا وجود مؤثر نہیں ہوگا، اور نہ ہی ایسی صورت حال میں قضا لازم آئے گی"انتہی

"عمدة الأحكام"(38/27)

مذکورہ بالا بیان سے واضح ہوگیا کہ جو شخص روزہ رکھنے کی نیت کیلئے تردد کا شکار ہوگیا تو اسکا روزہ صحیح ہوگا؛ کیونکہ اصل یہ ہے کہ روزہ باقی رہے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب