جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

روزہ توڑنے كى نيت كرنے كے بعد نيت تبديل كرنے كا حكم

سوال

ايك شخص رمضان ميں روزے كى حالت ميں سفر ميں تھا تو اس نے روزہ كھولنے كى نيت كى، ليكن روزہ كھولنے كے ليے كوئى چيز نہ ملنے كى وجہ سے نيت تبديل كر لى، اور اپنا روزہ مغرب تك مكمل كر ليا، تو كيا اس كا روزہ صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس نے روزہ كى حالت ميں روزہ كھولنے كى نيت كر لى تو اس كا روزہ باطل ہو جاتا ہے، صرف يہ ہے كہ اس نے پختہ نيت كى ہو اور اس ميں كسى قسم كا تردد نہ ہو، اور پھر جب اسے روزہ كھولنے كے ليے كوئى چيز نہ ملے تو اس نے نيت ميں تبديلى پيدا كر لى، تو اس كا روزہ ختم ہو چكا ہے، اور اس كے ذمہ اس دن كى قضاء ميں روزہ ركھنا لازم ہے، حنابلہ اور مالكيہ كا مسلك يہى ہے.

ليكن احناف اور شافعيہ اس كے خلاف ہيں.

ديكھيں: بدائع الصنائع ( 2 / 92 ) حاشيۃ الدسوقى ( 1 / 528 ) المجموع ( 6 / 313 ) كشاف القناع ( 2 / 316 ).

اس قول كى بنا پر كہ ا سكا روزہ باطل ہو جاتا ہے، اور راجح بھى يہى ہے، اس نے روزہ كھولنے كى پختہ نيت كى تھى اور اسميں كوئى تردد نہيں تھا، پھر جب اسے روزہ كھولنے كے ليے كچھ نہ ملا تو اس نے اپنى نيت تبديل كر لى، تو اس كا روزہ ٹوٹ گيا ہے، اور اسے اس دن كى قضاء ميں روزہ ركھنا ہو گا.

ليكن اگر وہ روزہ كھولنےميں متردد تھا، يا اس نے اسے كسى چيز پر معلق كيا: مثلا كہ اگر اسے كھانا پينا مل گيا تو وہ روزہ كھول دےگا، پھر اسے كھانے پينے كےليے كچھ نہ ملا تو اس كا روزہ صحيح ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص رمضان ميں سفر پر ہے اور روزہ سے ہے، اس نے روزہ كھولنے كى نيت كر لى ليكن اسے روزہ كھولنے كےليےكوئى چيز نہ ملى، تو اس نے نيت تبديل كر لى، اور روزہ پورا كر ليا، تو كيا ا سكا روزہ صحيح ہے؟

شيخ رحمہ اللہ نے جواب ديا:

" ا سكا روزہ صحيح نہيں، اور اس كے ذمہ اس دن كى قضاء ميں روزہ ركھنا لازم ہے؛ كيونكہ جب اس نے روزہ كھولنے كى نيت كى تھى تو اس كا روزہ كھل گيا تھا.

ليكن اگر وہ يہ كہتا كہ: اگر مجھے پانى مل گيا تو ميں پى لونگا وگرنہ ميں روزہ كى حالت ميں ہى رہونگا، اور اسے پانى نہ ملا تو اس كا روزہ صحيح ہے؛ كيونكہ اس نے اپنى نيت نہيں توڑى، ليكن اس نے روزہ كھولنے كو كسى كھانے پينے والى چيز كى موجودگى پر معلق كيا تھا، اور وہ چيز ملى ہى نہيں، تو وہ اپنى پہلى نيت پر ہى باقى ہے.

تو سائل يہ كہتا ہے:

ہم اس قول كا رد كيسے كرينگے: كہ كسى بھى عالم دين نے يہ نہيں كہا كہ نيت روزہ توڑنے والى اشياء ميں داخل ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

جو شخص يہ كہتا ہے ہم اسے يہ كہتے ہيں: وہ تو اہل علم كى كتاب كا علم ہى نہيں ركھتا ـ اہل علم كى فقھى اور مختصر كتابوں كا اسے علم ہى نہيں ہے ـ زاد المستقنع ميں ہے: اور جس نے روزہ كھولنے كى نيت كى تو اس كا روزہ كھل گيا.

ميرے بھائيو ميں آپ كو كہتا ہوں كہ آپ ايسے علماء سے بچ كر رہيں جو علم ميں رسوخ نہيں ركھتے،اور علمى طور پر معروف نہيں، ميں آپ كو ان سے بچنے كا كہتا ہوں كہ جب وہ يہ كہيں كہ مجھے تو اس قول كےكسى قائل كا علم نہيں، يا يہ قول كسى نے نہيں كہا، تو آپ ان سے بچ كر رہيں كيونكہ ہو سكتا ہے وہ سچے ہوں؛ اس ليے كہ نہ تو وہ اہل علم كى كتب كو جانتے ہيں، اور نہ ہى انہوں نےان كتب كا مطالعہ كيا ہے، اور نہ ہى اس كے متعلق كچھ جانتے ہيں.

پھر ہم اگر فرض كريں كہ يہ اہل علم كى كتب ميں نہيں ملتا، تو كيا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان نہيں ہے:

" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے " ؟

كيوں نہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو يہ فرمايا ہے، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہ فرما رہے ہيں:

" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے "

اور اس شخص نے روزہ كھولنے كى نيت كر لى ہے تو كيا ا سكا روزہ كھل جائيگا ؟

جى ہاں ا سكا روزہ كھل گيا ہے " انتہى.

ماخوذ از: لقاء الباب المفتوح ( 20 / 29 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب