الحمد للہ.
جب حمل كي مدت چار ماہ ہوجائےاور بچےميں روح پھونك دي جائے تو اس وقت عمدا حمل ساقط كرنا ايك جان قتل كرنےاور روح نكالنےكےمترادف ہےاور ايسا كرنا گناہ كبيرہ ميں شامل ہوتا ہے، اورڈاكٹروں كايہ كہنا كہ بچہ بدصورت ہے اسےقتل كرناجائز نہيں كرتا، پھر اگر وہ حمل خود ہي ساقط ہو جائےاوربچہ مرا ہوا ہو يا پھر بچہ پيدا ہونےكےبعد مرجائے تووالدين كواس مصيبت پر اجروثواب حاصل ہوگا، اور اگر وہ بچہ زندہ رہےتووالدين كےصبر اور اس كي خدمت كرنےپر بھي انہيں اجروثواب ملےگا، اورمؤمن شخص كےليے جوكچھ بھي ہواس كےخيرہي خير ہے، ليكن روح كوختم كرنے ميں تو شراورگناہ ہي ہےاس كےعلاوہ كچھ نہيں.
يہ تواس وقت ہے جب ڈاكٹروں كےاندازےكوليا جائےاوراس پر اعتبار كيا جائے، اوراسي طرح بچےكي حالت ميں جوكچھ تبديلي پيدا ہوتي رہتي ہو سكتا ہے اس ميں تبديلي آجائے،
واللہ اعلم .